اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۸۴

اس سلسلہ  بیان میں حضرت ابراہیم ؑ کا یہ واقعہ ، خصوصًا قومِ لوطؑ کے قصّے کی تمہید  کے طور پر ، بظاہر کچھ بے جوڑ سا محسوس ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت  میں یہ اُس مقصد کے لحاظ سے نہایت بر محل ہے جس کے لیے پچھلی تاریخ کے یہ واقعات یہاں بیان کیے جا رہے ہیں۔ اس کی مناسبت سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل دو باتوں کو پیشِ نظر رکھیے:
          (۱) مخاطب قریش کے لوگ ہیں جو حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد ہونے کی وجہ ہی سے تمام عرب کے پیرزادے، کعبۃ اللہ کے مجاور اور مذہبی و اخلاقی او ر سیاسی و تمدنی پیشوائی کے مالک بنے ہوئے ہیں اور اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ ہم پر خدا کا غضب کیسے نازل ہو سکتا ہے کہ جبکہ ہم خدا کے اُس پیارے بندے کی اولاد ہیں اور وہ خدا کےدربار میں ہماری سفارش کرنے کو موجود ہے۔ اس پندارِ غلط کو توڑنے کے لیے پہلے تو انہیں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ حضرت نوح ؑ جیسا عظیم الشان پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے جگر گوشے کو ڈوبتے دیکھ رہا ہے اور تڑپ کر خدا سے دعا کرتا ہے کہ اس کے بیٹے کو بچا لیا جائے مگر صرف یہی نہیں کہ اُس کی سفارش بیٹے کے کچھ کام نہیں آتی ، بلکہ اس سفارش پر باپ کو اُلٹی ڈانٹ سننی پڑتی ہے ۔ اس کے بعد اب یہ دوسرا منظر خود حضرت ابراہیم ؑ کا دکھایا جاتا ہے  کہ ایک طرف تو ان پر بے پایاں عنایات ہیں  اور نہایت پیا ر کے انداز میں ان کا ذکر ہو رہا ہے ، مگر دوسری طرف جب وہی ابراہیم ؑ خلیل انصاف کے معاملہ میں دخل دیتے ہیں تو ان کے اصرار و الحاح کے باوجود  اللہ تعالیٰ مجرم قوم کے معاملے میں ان کی سفارش کو رد کر دیتا ہے۔
          (۲) اس تقریر میں یہ بات بھی قریش کے ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وہ قانون ِ مکافات جس سے لوگ بالکل بے خوف اور مطمئن بیٹھے ہوئے تھے، کس طرح تاریخ کے دوران میں تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ظاہر ہوتا رہا ہے اور خود ان کے گردوپیش اس کے کیسے کھلے کھلے آثار موجود ہیں۔ ایک طرف حضرت ابراہیمؑ  ہیں جو حق و صداقت کی خاطر گھر سے بے گھر ہو کر ایک اجنبی ملک میں مقیم ہیں اور بظاہر کوئی طاقت ان کے پاس نہیں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ ان کے حسن ِ عمل کا یہ پھل ان کو دیتا ہے کہ بانجھ بیوی کے پیٹ سے بُڑھاپے میں اسحاق  ؑ پیدا ہوتے ہیں، پھر ان کے ہاں یعقوب ؑ کی پیدائش ہوتی ہے، اور ان سے بنی اسرائیل کی وہ عظیم الشان نسل چلتی ہے جس کی عظمت کے ڈنکے صدیوں تک اُسی فلسطین و شام میں بجتے رہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ ایک بے خانماں  مہاجر کی حیثیت سے آکر آباد ہوئے تھے۔ دوسری طرف قوم لوطؑ ہے جو اسی سرزمین کے ایک حصہ میں اپنی خوشحالی پر مگن اور اپنی بدکاریوں میں مست ہے۔ دور دور تک کہیں بھی اس کو اپنی شامتِ اعمال کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اور لوطؑ کی نصیحتوں کو وہ چٹکیوں میں اڑا رہے ہیں ۔ مگر جس تاریخ کو ابراہیم ؑ کی نسل سے ایک بڑی اقبال مند قوم کے اُٹھائَ جانے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ٹھیک وہی تاریخ ہے جب اِس بدکار قوم کو دنیا سے نیست و نابود کرنے کا فرمان نافذ ہوتا ہے اور وہ ایسے عبرتناک طریقہ سے فنا کی جاتی ہے کہ آج اس کی بستیوں کا نشان کہیں ڈھونڈے نہیں ملتا۔