اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۴۹

یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص کے جسم کا کوئی  عضو سڑ گیا ہو اور ڈاکٹر نے اس کو کاٹ پھینکنے کا فیصلہ کیا ہو۔ اب وہ مریض ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ یہ تو میرے جسم کا ایک حصہ ہے اسے کیوں کاٹتے ہو۔ اور ڈاکٹر اس کے جواب میں کہتا ہے  کہ یہ تمہارے جسم  کا حصہ نہیں ہے کیوں کہ یہ سڑ چکا ہے ۔ اس جواب کا مطلب یہ  نہ  ہوگا کہ فی الواقع  وہ سڑا ہوا عضو جسم سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ  تمہارے جسم کے لیے جو اعضا مطلوب ہیں وہ تندرست اور کارآمد اعضاء ہیں نہ کہ سڑ ے ہوئے  اعضا جو خود بھی کسی کام کے نہ نہوں اور باقی جسم کو بھی خراب کر دینے والے ہوں۔ لہٰذا جو عضو بگڑ چکا ہے وہ اب اُس مقصد  کے لحاظ سے تمہارے جسم کا ایک حصہ نہیں رہا جس کے لیے اعضاء سے جسم کا تعلق مطلوب ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک صالح باپ سے یہ کہنا کہ یہ بیٹا تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے کیونکہ اخلا ق وعمل کے لحاظ سے بگڑ چکا ہے ، یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کے بیٹا ہونے کی نفی کی جا رہی ہے ، بلکہ اس کا مطلب  صرف یہ ہے کہ یہ بگڑا ہوا انسان تمہارے صالح خاندان کا فرد نیہں ہے۔ وہ تمہارے نسبی خاندان کای ایک رکن ہو تو ہوا کر ے مگر تمہارے اخلاقی خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں۔ اور آج جو فیصلہ کیا جا رہا ہے وہ نسلی یا قومی نزاع کا نہیں ہے کہ ایک نسل والے بچائے جائیں اور دوسری نل والے غارت کر دیے جائیں ، بلکہ یہ فرو ایمان کی نزاع کا فیصلہ ہے جس میں صرف صالح بچائے جائیں گے اور فاسد مٹا دیے جائیں گے۔
بیٹے کو بگڑا ہوا کام کہہ کر ایک اور اہم   حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ ظاہر بین آدمی اولاد کو صرف اس لیے پرورش کرتا ہے اور اسے محبوب رکھتا ہے کہ وہ اس کی صُلب سے یا اس کے پیٹ سے پیدا ہوئی ہے ، قطع نظر اس سے کہ وہ صالح ہو یا غیر صالح، لیکن مومن کی نگاہ میں تو حقیقت پر ہونی چاہیے۔ اُسے تو اولاد کو اِس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ یہ چند انسان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے فطری طریقہ سے میرے سپرد کیا ہے تاکہ ان کو پال پوس کر اور تربیت دے کر اُس مقصد کے لیے تیار کروں جس کے لیے اللہ نے دنیا میں انسان کو پیدا کیا ہے ۔ اب اگر اس کی تمام کوششوں اور محنتوں کے باوجود کوئِ شخص جو  اس کے گھر  پیدا ہوا تھا۔ اس مقصد کے لیے تیار نہ ہو سکا اور اپنے اس رب ہی کا اوفادار خادم نہ بنا جس نے اس کو مومن باپ کے حوالے کیا تھا، تو اس باپ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری محنت و کوشش ضائع ہو گئی، پھر کوئی وجہ نہیں کہ ایسی اولاد کے ساتھ اسے کوئی دل بستگی ہو۔
پھر جب یہ معاملہ اولاد جیسی عزیز ترین  چیز کے  ساتھ ہے تو دوسرے رشتہ دارں کے متعلق مومن کا نقطۂ نظر جو کچھ ہو سکتا ہے ہو ظاہر ہے ۔ ایمان ایک فکری و اخلاقی صفت ہے۔ مومن اسی صفت کے لحاظ سے مومن کہلاتا ہے۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے اس کا کوئی رشتہ بجز اخلاقی و ایمانی رشتہ کے  نہیں ہے۔ گوشت پوست کے رشتہ دار اگر اس صفت میں اس کے ساتھ شریک ہیں تو یقینًا وہ اس کے رشتہ دار ہیں، لیکن اگر وہ اس صفت سے خالی ہیں تو مومن محض گوشت پوست کی حد تک ان سے تعلق رکھے گا، اس کا قلبی و روحی تعلق ان سے نہیں ہو سکتا ۔ اور اگر ایمان و کفر کی نزاع میں وہ مومن کے مدِ مقابل آئیں تع اس کے لیے وہ اور اجنبی کافر یکساں ہوں گے۔