اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۳۹

اندازِ کلام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت نوح کا یہ قصہ سنتے ہوئے مخالفین نے اعتراض کیا ہو گا کہ محمد ؐ یہ قصے بنا بنا کر اس لیے پیش کرتا ہے  کہ انہیں ہم پر چسپاں کرے۔ جو چوٹیں وہ ہم پر براہِ راست نہیں کرنا چاہتا ان کے لیے ایک قصہ گھڑتتا ہے اور اس طرح ”درحدیث دیگراں“ کے انداز میں ہم پر چوٹ کرتا ہے ۔ لہٰذا سلسلۂ کلام توڑ کر ان کے اعتراض کا جواب اِس فقرے میں دیا گیا۔
واقعہ یہ ہے کہ گھٹیا قسم کے لوگوں کا ذہن ہمیشہ بات کے بُرےپہلو کی طرف جایا کرتا ہے اور اچھائی سے اُنہیں کوئ دلچسپی نہیں ہوتی کہ بات کے اچھے پہلو پر ان کی نظر جا سکے۔ ایک شخص نے اگر کوئی حکمت کی بات کہی ہے یا وہ تمہیں کوئی مفید سبق دے رہا ہے یا تمہاری کسی غلطی پر تم کو متنبہ کر رہا  ہے تو اُس سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنی اصلاح کرو۔ مگر گھٹیا آدمی ہمیشہ اس میں برائی کا کوئی ایسا پہلو تلاش کرے گا جس سے حکمت اور نصیحت پر پانی پھیر دے اور نہ صرف خود اپنی برائی پر قائم رہے بلکہ قائل کے ذمّے بھی اُلٹی کچھ برائی لگا دے۔ بہتر سے بہتر نصیحت بھی ضائع کی جا سکتی ہے اگر سننے والا اسے خیر خواہی کے بجائے”چوٹ“ کے معنی میں لے لے اور اس کا ذہن اپنی غلطی کے احساس و ادراک کے بجائے برا ماننے کی طرف چل پڑے ۔ پھر اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی فکر  کی بنا پر ایک بنیادی بدگمانی پر رکھتے ہیں۔ جس بات کے حقیقت واقعی ہونے اور این بناوٹی داستان ہونے کا یکساں امکان ہو، مگر وہ ٹھیک ٹھیک تمہارے حال پر چسپاں ہو رہی ہو اور اس میں تمہاری کسی غلطی کی نشان دہی ہوتی ہو، تو تم ایک دانش مند آدمی ہوگے اگر اُسے ایک واقعی حقیقت سمجھ کر اُس کے سبق آموز پہلو سے فائدہ اُٹھاؤ گے، اور محض ایک بدگمان و کج نظر آدمی ہو گے اگر کسی ثبوت کے بغیر یہ الزام لگا دو گے کہ قائل نے محض ہم پر چسپاں کرنے کے لیے یہ قصہ تصنیف کر لیا ہے ۔ اسی  بنا پر یہ فرمایا  کہ اگر یہ داستان میں نے گھڑی ہے تو اپنے جرم کا میں ذمہ دار ہوں، لیکن جس جرم کا تم ارتکاب کر رہے ہو وہ تو اپنی جگہ قائم ہے اور اس کی ذمہ داری میں تم ہی پکڑے جاؤ گے نہ کے میں۔