اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر۲۸

یعنی کیا ان دونوں کا طرزِ عمل اور آخر کار دونوں کا انجام یکساں ہو سکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ جو شخص نہ خود راستہ  دیکھتا ہے اور نہ کسی ایسے شخص کی بات ہی سنتا ہے جو اسے راستہ بتا رہا ہو وہ ضرور کہیں ٹھوکر کھا ئے گا اور کہیں کسی سخت حادثہ سے دوچار ہو گا۔ بخلاف اس کے جو شخص خود بھی راستہ دیکھ رہا ہو اور کسی واقف راہ کی ہدایات سے بھی فائدہ اُٹھاتا ہو وہ ضرور اپنی منزل پر بسلامت پہنچ جائے گا۔ بس یہی فرق اُن لوگوں کے درمیان بھی ہے جن میں سے ایک اپنی آنکھوں سے بھی کائنات میں حقیقت کی نشانیوں کا مشاہدہ کرتا ہے اور خدا کے بھیجے ہوئے رہنماؤں کی بات بھی سنتا ہے، اور دوسرا نہ خود ہِیے کی آنکھیں کھلی رکھتا ہے کہ خدا کی نشانیاں اسے نظر آئیں اور نہ پیغمبروں کی بات ہی سُن کر دیتا ہے۔ کیونکر ممکن ہے کہ زندگی میں ان دونوں کا طرزِ عمل یکساں ہو؟ اور پھر کیا وجہ ہے کہ آخر کار ان کے انجام میں فرق نہ ہو؟