اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر ۱۶

یعنی جس کے پیشِ نظر محض دنیا اور اس کا فائدہ ہو، وہ اپنی دنیا بنانے کی جیسی  کوشش یہاں کرے گا ویسا ہی اس کا پھل اسے یہاں مل جائَ گا۔ لیکن جب کہ آخرت اس کے پیشِ نظر نہیں ہے اور اس کے لیے اس نے کوئی کوشش  بھی نہیں کی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی دنیا  طلب مساعی کی بار آوری کا سلسلہ آخرت تک دراز ہو۔ وہاں پھل پانے کا امکان تو صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ دنیا می آدمی کی سعی اُن کاموں کے لیے ہو جو آخرت میں  بھی مانع ہوں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص چاہتا ہے کہ ایک شاندار  مکان اسے رہنے کے لیے ملے اور وہ اس کے لیے اُن تدابیر کو عمل میں لاتا ہے جن سے یہاں مکان بنا کرتے ہیں تو ضرور ایک عالی شان محل بن کر تیار ہو جائے گا اور اس کی کوئی اینٹ بھی محض اس بنا پر جمنے سے انکار نہ کرے گی کہ ایک کافر اسے جمانے کی کوشش کر رہا ہے  ۔ لیکن اس شخص کو اپنا یہ محل اور اس کا سارا سروسامان موت کی آخر ی ہچکی کے ساتھ ہی اِس دنیا میں چھوڑ  دینا پڑے گا اور اس کی کوئی چیز بھی وہ اپنے ساتھ دوسرے عالم میں نہ لے جا سکے گا ۔ اگر اس نے آخرت میں محل تعمیر کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے تو کوئی معقول وجہ نہیں کہ اس کا یہ م حل وہاں ا س کے ساتھ متنقل ہو۔ وہاں کوئی محل وہ پاسکتا ہے تو صرف اس صورت میں پاسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس کی سعی اُن کاموں میں ہو جن سے قانونِ الہٰی کے مطابق آخرت کا محل بنا کرتا ہے۔
اب سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس دلیل کا تقاضا تو صرف اتنا ہی ہے کہ وہاں اسے کوئی محل نہ ملے۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ محل کے بجائے وہاں اسے آگ ملے؟ اس کا جواب یہ ہے (اور یہ قرآن ہی کا جواب ہے جو مختلف مواقع پر اس نے دیا ہے) کہ جو شخص آخرت کو نظر انداز کر کے محض دنیا کے لیے کام کرتا ہے وہ لازمًا و فطرۃً ایسے طریقوں سے کام کرتا ہے جن سے آخرت میں محل کے بجائے آگ کا الاؤ تیار ہوتا ہے ۔ (ملاحظہ ہو سورۂ یونس ، حاشیہ نمبر ۱۲