اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر١۳

اس ارشاد کا مطلب سمجھنے کے لیے اُن حالات کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے جن میں یہ فرمایا گیا ہے ۔ مکہ ایک ایسے قبیلے کا صرف مقام ہے جو تمام عرب پر اپنے مذہبی اقتدار ، اپنی دولت و تجارتت اور اپنے سیاسی دبدبے کی وجہ سے چھایا ہوا ہے۔ عین اس حالت میں جب کہ یہ لوگ اپنے انتہائی عروج پر ہیں  اس بستی  کا ایک آدمی اُٹھتا ہے اور علی الاعلان کہتا کہ جس مذہب کے تم پیشوا ہو وہ سراسر گمراہی ہے، جس نظام تمدن کے تم سردار ہو وہ اپنی جڑ تک گلا اور سڑا ہوا نظام ہے، خدا کا عذاب تم پرٹوٹ پڑنے کے لیے تُلا کھڑا ہے اور تمہارے لیے اس سے بچنے کی کوئی صورت  اس کے سوا نہیں کہ اُس مذہب ِ حق  اور اس نظام صالح کو قبو ل کر لو جو میں خدا کی طرف سے تمہارے سامنے پیش کررہا ہوں۔ اس شخص کے ساتھ اس کی پاک سیرت اور اس کی معقول باتوں کے سوا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں ہے جس سے عام لوگ اسے مامور من اللہ سمجھیں۔ اور گردوپیش کے حالات میں بھی مذہب و اخلاق اور تمدن کی گۃری بنیادی خرابیوں کے سوا کوئی ایسی ظاہر علامت نہیں ہے جو نزول عذاب کی نشان دہی کر تی ہو۔ بلکہ اس کے برعکس تمام نمایاں  علامتیں یہی ظاہر  کر رہی ہیں کہ ان لوگوں پر خدا کا (اور ان کے عقیدے کے مطابق) دیوتاؤں کا بڑا فضل ہے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں ٹھیک ہی کر رہے ہیں ۔ ایسے حالات میں  یہ بات کہنے کا نتیجہ  یہ ہوتا ہے ، اور اس کے سوا کچھ ہو بھی نہیں سکتا ، کہ چند نہایت صحیح الدماغ اور حقیقت رس لوگوں کے سوا  بستی کے سب لوگ اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔ کوئی ظلم و ستم سے اس کو دبانا چاہتا ہے۔ کوئی جھوٹے الزامات اور اوچھے اعتراضات سے اس کی ہوا اُکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی متعصبانہ بے رخی سے اس کی ہمت شکنی کرتا ہے اور کوئی مذاق اُڑا کر، آوازے اور پھبتیاں کس کر، اور ٹھٹھے لگا کر اس کی باتوں کو ہوا میں اڑا دینا چاہتا ہے۔ یہ استقبال جو کئی سال تک اس شخص کی دعوت کا ہوتا رہتا ہے ، جیسا کچھ دل شکن اور مایوس کن ہو سکتا ہے، ظاہر ہے ۔ بس یہی صورتِ حال ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ہمت بندھانے کے لیے تلقین فرماتا ہے کہ اچھے حالات میں پھول جانا اور بُرے حالات میں مایوس ہو جانا  چھچورے لوگوں کا کام ہے۔ ہماری نگاہ میں قیمتی انسان وہ ہے جو نیک ہو اور نیکی کے راستے پر صبر و ثبات اور پا مردی کے ساتھ چلنے والا ہو۔ لہٰذا جس تعصب سے ، جس بے رُخی سے ، جس تضحیک و استہزا سے اور جن جاہلانہ  اعتراضات سے تمہارا مقابلہ کیا جا رہا ہے  ان کی وجہ سے تمہارے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آنے پائے ۔ جو صداقت تم پر بذریعۂ وحی منکشف  کی گئی ہے ا سکے اظہار و اعلان میں اور اس کی طرف دعوت دینے میں تمہیں قطعًا کوئی باک نہ ہو۔ تمہارے دلمیں اس خیال کا کبھی گزر تک نہ ہو کہ بلاں بات کیسے کہوں جبکہ لوگ سنتے ہی اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں  اور فلاں حقیقت کا اظہار کیسے کروں جب کہ کوئی اس کے سننے تک کا روادار نہیں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، تم جسے حق پاتے ہو اسے بے کم و کاست اور بے خوف بیان کیے جاؤ، آگے سب معاملات اللہ کے حوالہ ہیں۔