اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر ۱۱۶

یہ اس شبہہ کا جواب ہے جو بالعموم  ایسے مواقع پر تقدیر کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ اوپر اقوام گزشتہ کی تباہی کا جو سبب بیان کیا گیا ہے  اس پر یہ اعتراض کیا جا سکتا تھا کہ  ان میں اہلِ خیر کا موجود نہ رہنا  یا بہت کم پایا جانا بھی تو آخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کا الزام ان قوموں پر کیوں رکھا جائے ؟ کیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہلِ خیبر پیدا کر دیے ؟ اس کے جواب میں یہ حقیقت حال صاف صاف بیان کر دی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کے بارے میں یہ ہے  ہی نہیں کہ حیوانات اور نباتات اور ایسی ہی دوسری مخلوقات کی طرح اُس کو بھی جِبلِّی طور پر ایک لگے بندھے راستے کا پابند بنا دیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ  اس کی مشیت ہوتی تو پھر دعوتِ ایمان ، بعثتِ ایمان، بعژتِ انبیاء اور تنزیل ِ کتب کی ضرورت ہی کیا تھی، سارے انسان مسلم و مومن ہی پیدا ہوتے اور کفر و عصیان کا سرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نے انسان کے بارے میں جو مشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کو انتخاب و اختیار کی آزادی بخشی جائے ، اسے اپنی پسند کے مطابق مختلف راہوں پر چلنے کی قدرت دی جائے ، اس کے سامنے جنت اور دوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اور پھر ہر انسان اور ہر انسانی گروہ کو موقع دیا جائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کو بھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تا کہ ہر ایک جو کچھ بھی پائے اپنی سعی و کسب کے نتیجہ میں پائے۔ پس جب وہ اسکیم جس کے تحت انسان پیدا کیا گیا ہے، آزادیِ انتخاب اور اختیاری کفر و ایمان کے اصول پر مبنی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی قوم خود تو بڑھنا چاہے بدی کی راہ پر اور اللہ زبردستی اس کو خیر کے راستے  پر موڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے تو انسان سازی کے وہ کارخانے  بنائے  جو ایک سے ایک بڑھ کر بدکار اور ظالم اور فاسق آدمی ڈھال ڈھال کر نکالیں ، اور اللہ اپنی براہِ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کر دے جو اس کے بگڑے ہوئے سانچوں کو ٹھیک کر دیں۔  اس قسم کی مداخلت خدا کے دستور میں نہیں ہے ۔ نیک ہوں یا بد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم  کو خود ہی مہیا کر نے ہوں گے۔ جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کو پسند کرے گی، جس میں سے کوئی  معتدبہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا  جو نیکی  کا جھنڈا بلند کرے  ، اور جس  نےاپنے اجتماعی نظام میں اس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگ ی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خدا کو کیا پڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تو اس کو اسی انجام کی طرف دھکیل دے گا جو اس نے خود اپنے  لیے انتخاب کیا ہے۔ البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہو سکتی ہے تو صرف وہ جس میں بہت سے افرا د ایسے نکلیں جو خود دعوت خیر کو لبیک کہنے والے ہوں  اور جس نے اپنے اجتماعی نظام میں یہ صلاحیت باقی رہنے دی ہو کہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کر سکیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، حاشیہ ۲۴