اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر١١۰

اس کا  مطلب یہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعی ان معبودوں کی طرف سے کسی شک میں تھے،  بلکہ دراصل  یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے عامۃ الناس کو سنائی جا رہی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کسی مرد معقول کو اس شک میں نہ  رہنا چاہیے کہ یہ لوگ جو ان معبودوں کی پرستش کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے میں لگے ہوئے ہیں تو آخر کچھ تو انہوں نے دیکھا ہو گا جس کی وجہ سے یہ ان سے نفع کی امیدیں رکھتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ پرستش اور نذریں اور نیازیں اور دعائیں کسی علم، کسی تجربے اور کسی حقیقی  مشاہدے کی بنا پر نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ نری اندھی تقلید کی وجہ سے  ہو رہا ہے۔ آخر یہی آستانے پچھلی قوموں کے ہاں بھی موجود تھے۔ اور ایسی ہی ان کی کرامتیں ان میں بھی مشہور تھیں۔ مگر جب خدا کا عذاب آیا تو وہ تباہ ہو گئیں اور یہ آستانے یونہی دھرے کے دھرے رہ گئے۔