اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر ۱۰۵

یعنی تاریخ کے اِن واقعات میں ایک ایسی نشانی ہے جس پر اگر انسان غور کرے تو اسے یقین آجائے گا کہ عذاب آخرت ضرور پیش آنے والا ہے اور اس کے متعلق پیغمبروں کی دی ہوئی خبر سچی ہے ۔ نیز اس  کی نشانی  سے وہ  یہ  بھی معلوم کر سکتا ہے کہ عذاب آخرت کیسا سخت ہو گا اور یہ علم اس کے دل میں خوف پیدا کر کے اسے سیدھا کردے گا۔
اب رہی یہ بات کہ تاریخ میں وہ کیا چیز ہے جو آخرت اور اس کے عذاب کی علامت کہی جا سکتی ہے ، تو ہر وہ شخص اسے بآسانی سمجھ سکتا ہے جو تاریخ کو محض واقعات کا مجموعہ ہی نہ سمجھتا ہو بلکہ ان واقعات کی منگق پر بھی کچھ غور کرتا ہو اور ان سے نتائج بھی اخذ کرنے کا عادی ہو۔ ہزار ہا برس کی انسانی تاریخ میں قوموں اورجماعتوں  کا اٹھنا اور گرنا جس تسلسل اور باضابطگی  کے ساتھ رونما ہوتا رہا ہے ، اور پھر اس گرنے اور اُٹھنے میں جس طرح صریحًا کچھ اخلاقی اسباب کا ر فرما رہے ہیں ، اور گرنے والی قومیں جیسی جیسی عبرت انگیز صورتوں سے گری ہیں ، یہ سب کچھ اس حقیقت کی طرف کھلا اشارہ  ہے   کہ انسان اس کائنات میں ایک ایسی حکومت کا محکوم ہے جو محض اندھے  طبعیاتی قوانین پر فرنروائی نہیں کر رہی ہے ، بلکہ اپنا ایک معقول اخلاقی قانون رکھتی ہے جس کے مطابق وہ اخلاق کی ایک خاص حد سے اوپر رہنے والوں کو جزا دیتی ہے ، اس سے نیچے اترنے والوں کو کچھ مدت تک دھیل دیتی رہتی ہے، اور جب وہ اس سے بہت زیادہ نیچے چلے جاتے ہیں تو پھر انہیں گرا کر  ایسا پھینکتی ہے کہ وہ ایک داستان عبرت بن کر رہ جاتے ہیں ۔ ان واقعات کا ہمیشہ ایک ترتیب کے ساتھ رونما ہوتے رہنا اس امر میں شبہہ کرنے کی ذرہ برابر گنجائش نہیں چھوڑتا کہ جزا اور مُکافات اس سلطنتِ کائنات کا ایک مستقل قانون ہے۔
پھر جو عذاب مختلف قوموں پر آئے ہیں اُن پر مزید غور کرنے سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ  ازروئے انصاف قانونِ جزا و مُکافات کے جو اخلاقی  تقاضے ہیں وہ ایک حد تک تو ان عذابوں سے ضرور پورے ہوئے ہیں مگر بہت بڑی حد تک ابھی تشنہ ہیں۔ کیونکہ دنیا میں جو عذاب آیا اس نے صرف اُس  نسل کو پکڑا جو عذاب کے وقت موجود تھی۔ وہیں وہ نسلیں جو شرارتوں کے بیج بو کر اور ظلم  و  بدکاری کی فصلیں تیار کر کے کٹائی سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں اور جن کے کرتوتوں کا خمیازہ بعد کی نسلوں کو بھگتنا پڑا، وہ تو گویا   قانون مکافات  کے عمل سے صاف ہی بچ نکلی ہیں۔ اب اگر ہم تاریخ کے مطالعہ سے سلطنت کائنات کے مزاج کو ٹھیک ٹھیک سمجھ چکے ہیں تو ہمارا یہ مطالعہ ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ عقل اور انصاف کی رو سے قانون مکافات کے جو اخلاقی تقاضے ابھی تشنہ ہیں ،ا ن کو پورا کرنے کے لیے یہ عادل سلطنت یقینًا پھر ایک  دوسرا عالم برپا کرے گی اور وہاں تمام ظالموں کو ان کے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور وہ بدلہ دنیا کے اِن عذابوں  سے بھی زیادہ سخت ہو گا ۔ (ملاحظہ ہو سورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۳۰ و سورہ یونس، حاشیہ نمبر ۱۰