اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر١۰۲

یہ سمجھ میں نہ آنا کچھ اس بنا پر نہ تھا کہ  حضر شعیبؑ  کسی غیر زبان میں کلام کرتے تھے، یا ان کی باتیں بہت مُغلق اور پیچیدہ ہوتی تھیں۔ باتیں تو سب صاف  اور سیدھی ہی تھیں اور اُسی زبان میں کی جاتی تھیں جو یہ لوگ بولتے  تھے، لیکن ان کے ذہن کا سانچا اس قدر ٹیڑھا ہو چاک تھا کہ حضرت شعیبؑ کی سیدھی باتیں کسی طرح اس میں نہ اُتر سکتی تھیں ۔ قاعدے کی بات ہے کہ جو لوگ تعصبات اور خواہش نفس کی بندگی میں شدت کے ساتھ مبتلا ہوتے ہیں اور کسی خاص طرزِ خیال پر جامد ہو چکے ہوتے ہیں، وہ اوّل تو کوئی ایسی بات سن ہی نہیں سکتے جو ان کے خیالات سے مختلف ہو، اور اگر سُن بھی لیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کس دنیا کی باتیں کی جا رہی ہیں۔