اس رکوع کو چھاپیں

سورة ھود حاشیہ نمبر١۰

یہ انسان کے چھچورے پن ، سطح بینی، اور قلت تدبر کا حال ہے جس کا مشاہدہ ہر وقت زندگی میں ہوتا رہتا ہے اور جس کو عام طور پر لوگ اپنے نفس  کا حساب لے کر خود اپنے اندر بھی محسوس کر سکتے ہیں۔ آج خوشحال اور زور آور ہیں تو اکڑ رہے ہیں اور فخر کر رہے ہیں ۔ ساون کے اندھے کی طرح ہر طرف ہر اہی نظر آرہا ہے اور خیال تک نہیں آتا کہ کبھی اس بہار پر خزاں  بھی آسکتی ہے۔ کل کسی مصِبت کے پھیر میں آگئے تو بلبلا اُٹھے، حسرت و یاس  کی تصویر بن  کر رہ گئے، اور بہت تَلمَلا ئے تو خد ا کو گالیاں دے کر ا ور اس  کی خدائی پر طعن کر کے غم غلط کر نے لگے۔ پھر جب بُرا وقت گزر گیا اور بھلے دن آئے تو وہی اکڑ ، وہی ڈینگیں اور نعمت کے نشے میں وہی سرمستیاں پھر شروع ہو گئیں۔
انسان کی اس ذلیل صفت کا یہاں کیاں ذکر  ہو رہا ہے؟ اس کی غرض ایک نہایت لطیف انداز میں لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ آج اطمینان کے ماحول میں جب ہمارا پیغبر خبردار کرتا ہے کہ خدا کی نافرمانیاں کرتے رہو گے تو تم پر عذاب آئے گا ، اور تم اس کی یہ بات سُن کر ایک زور کا ٹھٹھا مار تے ہو، اور کہتے ہو کہ”دیوانے دیکھتا نہیں کہ ہم پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہے ، ہر طرف ہماری بڑائی کے پھریرے اُڑ رہے ہیں، اس وقت تجھے دن دہاڑے یہ ڈراؤنا  خواب کیسے نظر آگیا کہ کوئی عذاب ہم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے “، تو دراصل پیغمبر کی نصیحت کے جواب میں تمہارا یہ ٹھٹھا  اِسی ذلیل صفت کا ایک ذلیل تر مظاہرہ ہے۔ خدا تو تمہاری گمراہیوں اور بدکاریوں کے باوجود محض اپنے رحم و کرم سے تمہاری سزا میں تاخیر کر رہا ہے تا کہ تم کِسی طرح سنبھل جاؤ، مگر تم اس مہلت کے زمانے میں یہ سوچ رہے ہو کہ ہماری خوش حالی کیسی پائیدار  بنیادوں پر قائم ہے اور ہمارا یہ چمن کیسا دسدا بہار ہے کہ اس پر خزاں آنے کا کوئی  خطرہ  ہی نہیں۔