اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۸۳

”ان صادق الایمان نوجوانوں کی یہ دعا کہ ”ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا“ ، برے وسیع مفہوم پر حاوی ہے۔ گمراہی کے  عام غلبہ و تسلّط کی حالت میں جب کچھ لوگ قیام حق کے لیے اُٹھتے ہیں، تو اُنہیں مختلف قسم کے ظالموں سے سابقہ پیش آتا ہے۔ ایک طرف باطل  کے اصلی علمبردار ہوتے  ہیں جو پوری طاقت سے اِن داعیان ِ حق کو کچل دینا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف نام نہاد حق پرستوں کا ایک اچھا خاصا گروہ ہوتا  ہے جو حق کو ماننے کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر باطل کی قاہرانہ فرماں روائی کے، مقابلہ میں اقامت حق کی سعی کو غیر  واجب، لاحاصل  ، یا حماقت سمجھتا ہے  اور اس  کی انتہائی کو شش یہ ہوتی ہے کہ اپنی اس خیانت کو جو وہ حق کے ساتھ کر رہا ہے کسی نہ کسی طرح درست ثابت کر دے اور ان لوگوں کو اُلٹا بر سر باطل ثابت کر کے اپنے ضمیر کی اُ س خلش کو مٹا ئے جو اُن کی دعوت  ِ اقامت ِ دینِ حق سے اس کےدل کی گہرائیوں میں جلی یا خفی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ تیسری طرف عامۃ الناس ہوتے ہیں جو الگ  کھڑے تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا ووٹ آخر کار اُسی طاقت کے حق میں پڑ ا کرتا ہے جس کا پلہ بھاری  رہے ، خواہ وہ طاقت حق ہو یا باطل۔ اس صورت حال میں ان داعیان حق کی ہر ناکامی ، ہر مصیبت ، ہر غلطی ، ہر کمزوری اور ہر خامی   ان مختلف گروہوں کے لیے مختلف طور پر فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ کچل ڈالے جائیں یا شکست کھا جائیں تو پہلا گروہ کہتا ہے کہ حق ہمارے ساتھ تھا نہ کہ ان بے وقوفوں کے ساتھ جو ناکام ہو گئے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ دیکھ لیا! ہم نہ کہتے تھے کہ ایسی بڑی بڑی طاقتوں سے ٹکرانے کا حاصل چند قیمتی جانوں کی ہلاکت کے سوا کچھ نہ ہوگا، اور آخر کار اس تہلکہ میں اپنے آپ کو ڈالنے کا ہمیں شریعت  نے مکلّف ہی کب کیا تھا، دین کے کم سے کم ضروری مطالبات تو اُن عقائد و اعمال سے پوری ہو ہی رہے تھے جن کی اجازت  فراعنۂ وقت نے دے رکھی تھی۔ تیسرا گروہ فیصلہ کر دیتا  ہے کہ حق وہی ہے جو غالب رہا۔ اسی طرح اگر وہ اپنی دعوت کے کام میں کوئی غلطی کر جائیں، یا مصائب و مشکلات کی سہار نہ ہونے کی وجہ سے کمزوری دکھا جائیں، یا ان سے ، بلکہ ان کے کسی ایک فرد سے بھی کسی اخلاقی عیب کا صدور ہو جائے ، تو بہت سے لوگوں کے  لیے باطل سے چمٹے رہنے کے ہزار بہانے نکل آتے ہیں اور پھر اس  دعوت کی ناکامی کے بعد  مدتہائے دراز تک کسی دوسری دعوت حق کے اُٹھنے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ پس یہ بڑی  معنی خیز دعا تھی جو موسیٰ علیہ السلام کے ان ساتھیوں نے مانگی تھی کہ خدایا ہم پر ایسا فضل فرما کہ ہم ظالموں کے لیے فتنہ بن کر نہ رہ جائیں۔ یعنی ہم کو غلطیوں سے ، خامیوں سے ، کمزوریوں سے بچا، اور ہماری سعی کو دنیا  میں بار آور کر دے، تا کہ ہمارا وجود تیری خلق کے لیے سبب خیر بنے نہ کہ ظالموں کے لیے وسیلۂ شر۔