اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۷۵

”مطلب یہ ہے کہ ظاہر نظر میں جادو اور معجزے  کے درمیان جو مشابہت ہوتی ہے اس کی بنا پر تم لوگوں نے بے تکلف اِسے جادو قرار دے دیا ، مگر نادانو! تم نے یہ نہ دیکھا کہ جادوگر  کس سیرت و اخلاق کے لوگ ہوتے ہیں اور کن مقاصد کے لیے جادوگری کیا کرتے ہیں۔ کیا کسی جادوگر کا یہی کام ہوتا ہے کہ بے غرض اور بےدھڑک ایک جبار  فرمانروا کے  دربار میں آئے اور اس کی گمراہی پر سرزنش کرے اور خدا پرستی اور طہارتِ نفس اختیار کرنے کی دعوت دے؟ تمہارے ہاں کوئی جادوگر آیا ہوتا تو پہلے درباریوں کے  پاس خوشامدیں کرتا پھرتا  کہ ذرا سرکار میں مجھے اپنے کمالات دکھانے کا موقع دلوا دو،  پھر جب اُسے دربار میں رسائی نصیب  ہوتی تو عام خوشامدیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ذلت کے ساتھ سلامیاں بجا لاتا،چیخ چیخ کر درازی  عمر و اقبال کی دعائیں دیتا ، بڑی منت سماجت کے ساتھ درخواست کرتا  کہ سرکار کچھ فدوی کی کمالات بھی ملاحظہ فرمائیں ، اور جب تم اس کے تماشے  دیکھ لیتے تو ہاتھ پھیلا دیتا کہ حضور کچھ انعام مِل جائے۔
 اس پورے مضمون کو صرف ایک فقرے میں سمیٹ دیا ہے کہ جودو گر فلاح یافتہ نہیں ہوا کرتے۔