اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر٦۰

اُردو زبان میں رزق کا اطلاق صر ف کھانے پینے کی چیزوں پر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہاں گرفت صرف اُس قانون سازی پر کی گئی ہے جو دستر خوان کی چھوٹی سی دنیامیں مذہبی اوہام یا رسم و رواج کی بنا پر لوگوں  نے کر ڈالی ہے۔ اس غلط فہمی میں جہلا اور عوام ہی  نہیں علما تک مبتلا ہیں۔ حالانکہ عربی زبان میں رزق محض خوراک کے معنی تک محدود نہیں ہے بلکہ عطاء اور بخشش اور نصیب کے معنی میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی دنیا میں انسان کو دیا ہے وہ سب اس کا رزق ہے ، حتیٰ کہ اولاد تک رزق ہے۔ اسماء الرجال کی کتابوں میں بکثرت راویوں کے نام رزق اور رُزَیق اور رزق اللہ ملتے ہیں جس کے معنی تقریبًا وہی ہیں جو اردو میں اللہ دیے کے معنی ہیں۔ مشہور دعا ہے ۔ مشہور دعا ہے اللھم ارنا الحق حقا  و ارزقنا اتباعہ، یعنی ہم پر حق واضح کر اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دے ۔ محاورے میں بولا جاتا ہے رُزِقَ علمًا فلاں شخص کو علم دیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر حاملہ کے پیٹ میں ایک فرشتہ بھیجتا  ہے اور وہ پیدا ہونے والے کا رز ق اور اس کی مدت عمر اور اس کاکام لکھ دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں رزق سے مراد صرف وہ خوراک ہی نہیں ہے جو اس بچے کو آئندہ ملنے والی ہے بلکہ وہ سب کچھ ہے جو اسے دنیا میں دیا جائےگا۔ خود قرآن میں ہے وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ ، جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پس رزق کو محض دستر خوان کی سرحدوں تک محدود سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ کو صرف اُن پابندیوں اور آزادیوں پر اعتراض ہے جو کھانے پینے کی چیزوں کے معاملہ میں لوگوں نے بطور خود اختیار کر لی ہیں، سخت غلطی ہے۔ اور یہ کوئی معمولی غلطی نہیں ہے ۔ اس کی بدولت خدا کے دین کی ایک بہت بڑی اصولی تعلیم لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ہے۔ یہ اسی غلطی کا تو نتیجہ ہے کہ کھانے پینے کی چیزوّ حلت و  حرمت اور جواز و  عدم جواز کا معاملہ تو ایک دینی معاملہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن تمدن کے وسیع تر معاملات میں اگر یہ اصول طے کر لیا جائے کہ انسان خود اپنے لیے حدود مقرر کرنے کا حق رکھتا ہے ، اور اسی بنا ہر خدا اور اس کی کتاب سے بے نیاز ہو کر قانون سا زی کی جانے لگے ، تو عامی تو درکنار ، علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اور مفسرین ِ قرآن و شیوخِ حدیث تک کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ چیز بھی دین سے اسی طرح ٹکراتی ہے جس  طرح ماکولات و مشروبات میں شریعت الہٰی سے بے نیاز ہو کر جائز و ناجائز کے حدود بطور خود مقرر کر لینا۔