اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۴۳

یہ ایک نہایت اہم سوال ہے کہ جس کو ذرا تفصیل کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے ۔ دنیا میں انسان کی ضرورتوں کا دائرہ صرف  اسی حد تک محدود نہیں ہے کہ اس کو کھانے پینے پہننے اور زندگی بسر کرنے کا سامان بہم پہنچے اور آفات ، مصائب اور نقصانات سے وہ محفوظ رہے۔ بلکہ اُس کی ایک ضرورت ( اور درحقیقت سب سے بڑی ضرورت) یہ بھی ہے کہ اسے دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ معلوم ہو اور وہ جانے کہ اپنی ذات کے ساتھ، اپنی قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ، اُس سرو سامان کے ساتھ جو روئے زمین پر اُس کے تصرف میں ہے، اُن بے شمار انسانوں کے ساتھ جن سے مختلف ، حیثیتوں میں اس کو سابقہ پیش آتا ہے، اور مجموعی طور پر اس نظام ِ کائنات کے ساتھ جس کے ماتحت رہ کر ہی بہر حال اس کو کام کرنا ہے، وہ کیا اور کس طرح معاملہ کرے جس سے اس کی زندگی بحیثیت مجموعی کامیاب ہو اور اس کی کوششیں اور محنتیں غلط راہوں میں صرف ہو کر تباہی و بربادی پر منتج نہ ہوں۔ اسی صحیح طریقہ کا نام ”حق “ ہے اور جو رہنمائی اس طریقہ کی طرف انسان کو لے جائے وہی ”ہدایت ِ حق“ ہے۔ اب قرآن تمام مشرکین سے اور اُن سب لوگوں سے جو پیغمبر کی تعلیم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ، یہ پوچھتا ہے کہ تم خدا کے سوا جن جن کی بندگی کرتے ہو ان میں کوئی ہے جو تمہارے لیے”ہدایتِ حق“حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہو یا بن سکتا ہو؟ ۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے کہ انسان خدا کے سوا جن کی بندگی کرتا ہے وہ دو بڑی اقسام پر منقسم ہیں:
ایک وہ دیویاں ، دیوتا اور زندہ یا مردہ  انسان جن کی پرستش کی جاتی ہے۔ سو اُن کی طرف تو انسان کا رجوع صرف اس غرض کے لیے ہوتا ہے کہ فوق الفطری طریوے سے وہ اس کی حاجتیں پوری کریں اور اس کو آفات سے بچائیں۔ رہی ہدایت ِ حق ، تو وہ نہ کبھی ان کی طرف سے آئی ، نہ کبھی کسی مشرک نے اس کے لیے اُن کی طرف  رجوع کیا، اور نہ کوئی مشرک یہ کہتا ہے کہ اس کے یہ معبود اسے اخلاق، معاشرت، تمدن، معیشت، سیاست، قانون، عدالت وغیرہ کے اصول سکھاتے ہیں۔
 دوسرے وہ انسان جن کے بنائے ہوئے اصولوں اور قوانین کی پیروی و اطاعت کی جاتی ہے۔ سو وہ رہنما تو ضرور ہیں مگر  سوال یہ ہے کہ کیا فی الواقع وہ”رہنمائے حق“ بھی ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ کیا اُن میں سےکسی کا علم بھی اُن تمام حقائق پر حاوی    ہے جن کو جاننا انسانی زندگی کے صحیح اصول وضع کرنے کے لیے ضروری ہے؟ کیا ان میں سے کسی کی نظر بھی پورے دائرے پر پھیلتی ہے  جس میں انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل پھیلے ہوئے ہیں؟ کیا  ان میں سے کوئی بھی اُن کمزوریوں سے ، ان تعصبات سے ، اُن شخصی یا گروہی دلچسپیوں سے، اُن اغراض و خواہشات سے ، اُن رحجانات و میلانات سے بالاتر ہے جو انسانی  معاشرے کے لیے منصفانہ قوانین بنانے میں مانع ہو تے ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے ، اور ظاہر ہے کہ کوئی صحیح الدماغ آدمی ان سوالات کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا، تو آخر یہ لوگ ”ہدایتِ حق“ کا سرچشمہ کیسے ہو سکتے ہیں؟
اسی بنا پر قرآن یہ سوال کرتا ہے کہ لوگو، تمہارے اِن مذہبی معبودوں اور تمدنی خداؤں میں کوئی ایسا بھی ہے جو راہِ راست کی طرف تمہاری رہنمائی کرنے والا ہو؟ اوپر کے سوالات کے ساتھ مل کر یہ آخری سوال دین و مذہب کے پورے مسئلے کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔ انسان کی ساری ضرورتیں دو ہی نوعیت کی ہیں۔ ایک نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی اس کا پروردگار ہو ، کوئی ملجا و مادیٰ ہو، کوئی دعاؤں کا سننے والا اور  حاجتوں کا پورا کرنے والا ہو جس کا مستقل سہارا اِس عالمِ اسباب کے بے ثبات سہاروں کے درمیان رہتے ہوئے وہ تھام سکے ۔ سو اوپر کے سوالات نے فیصلہ کر دیا کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے۔ دوسری نوعیت کی ضروریات یہ ہیں کہ کوئی ایسا رہنما ہو جو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے صحیح اصول بتائے اور جس کے دیے ہوئے قوانینِ حیات کی پیروی پورے اعتماد و اطمینان کے ساتھ کی جا سکے۔ سو اس آخری سوال نے اُس کا فیصلہ بھی کر دیا کہ وہ بھی صرف خدا ہی ہے۔ ا س کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی جس کی بنا پر انسان مشرکانہ مذاہب اور لادینی (Secular ) اصولِ تمدن  و اخلاق و سیاست سے چمٹا رہے۔