اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۳

یعنی جادوگر کی پھبتی تو انہوں نے اس پر کس دی مگر یہ نہ سوچا کہ وہ چسپاں بھی ہوتی ہے  یا نہیں ۔ صرف یہ بات کہ کوئی شخص اعلیٰ درجہ کی خطابت سے کام لے کر دلوں اور دماغوں کو مسخر کر رہا ہے ، اُس ہپر یہ الزام عائد کر دینے کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی کہ وہ جادوگری کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس خطابت میں وہ بات  کیا کہتا ہے، کس غرض کے لیے قوت تقریر کو استعمال کر رہا ہے، اور جو اثرات اس کی تقریر  سے ایمان  لانے والوں کی زندگی پر مترتب ہو رہے ہیں وہ کس نوعیت کے ہیں جو خطیب کسی ناجائز غرض کے  لیے جادو بیانی کی طاقت استعمال کرتا ہے وہ تو ایک منہ پھٹ بے لگام، غیر ذمہ دار مقرر ہوتا ہے ۔ حق اور صداقت اور انصاف سے آزاد ہو کر ہر وہ بات کہہ ڈالتا ہے جو بس سننے والوں کو متاثر کر دے ، خوا ہ بجائے خود کتنی ہی جھوٹی، مبالغہ آمیز اورغیر منصفانہ  ہو۔ اس کی باتوں میں حکمت کے بجائے عوام فریبی ہوتی ہے کسی منظم فکر کے بجائے تناقض اور ناہمواری  ہوتی ہے ۔ اعتدال کے بجائے بے اعتدالی ہو ا کرتی ہے وہ تو محض اپنا سکہ جمانے کے لیے  زبان درازی کرتا ہے یا پھر لوگوں کو لڑانے اور ایک گروہ کو دوسرے کے مقابلہ میں ابھارنے کے لیے خطابت  کی شراب پلاتا ہے۔ اس کے اثر سے لوگوں میں نہ کوئِ اخلاقی بلندی پیدا ہوتی ہے، نہ ان کی زندگیوں میں کوئِ مفید تغیر رونما ہوتا ہے اور نہ کوئی صالح فکر یا صالح عملی حالت وجود میں آتی ہے ، بلکہ لوگ پہلے سے بدتر صفات کا مظاہرے کر نے لگتے ہیں۔ مگر یہاں تم دیکھ رہے ہو کہ پیغمبر جو کلام پیش کر رہا ہے اس میں حکمت ہے ، ایک متناسب نظام ِ فکر ہے، غایت درجے کا اعتدال اور حق و صداقت کا سخت التزام ہے، لفظ لفظ جچا تُلا  اور بات بات کانٹے کی تول پوری ہے۔ اس کی خطابت میں تم خلق خدا کی اصلاح کے سوا کسی دوسری غرض کی نشاندہی نہیں کر سکتے۔ جو کچھ وہ کہتا ہے اس میں اس کی اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی  یا کسی قسم کی دنیوی غرض کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ لوگ جس غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اس کے بُرے نتائج سے ان کو خبر دار کرے اور انہیں اُس طریقے کی طرف بلائیں جس میں ان کا اپنا  بھلا ہے۔ پھر اس کی تقریر سے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں وہ بھی جادوگروں کے اثرات سے بالکل مختلف ہیں۔ یہاں جس نے بھی  اس کا اثر قبول کیا ہے اس کی زندگی سنور گئی ہے ، وہ پہلے سے زیادہ بہتر اخلاق کا انسان بن گیا ہے اور اس کے سارے طرزِ عمل میں خیر و صلاح کی شان نمایاں ہو گئی ہے۔ اب تم  خود ہی سوچ لو، کیا جدوگر ایسی  ہی باتیں کرتے ہیں اور ان کا  جادو  ایسے ہی نتائج دکھایا کرتا ہے؟