اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۲۷

یعنی اس بات کی نشانی کہ یہ واقعی نبی بر حق ہے اور جو کچھ پیش کر رہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اس سلسلہ میں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نشانی کے لےی ان کا یہ مطالبہ کچھ اس بنا پر نہیں تھا کہ وہ سچے دل سے دعوتِ حق کو قبول کرنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اپنے اخلاق کو ، عادت کو، نظامِ معاشرت و تمدن کو ، غرض اپنی پوری زندگی کو ڈھال لینے کے لیے تیار تھے اور بس اس وجہ سے ٹھیرے ہوئے تھے کہ نبی کی تائید میں کوئی نشانی ابھی انہوں نے ایسی نہیں دیکھی تھی جس سے انہیں اس کی نبوت کا یقین آجائے ۔ اصل  بات یہ تھی کہ نشانی کا یہ مطالبہ محض ایمان نہ لانے کے لیے ایک بہانے کے طور پیش  جاتا تھا۔ جو کچھ بھی ان کو دکھایا جاتا اس کے بعد وہ یہی کہتے کہ کوئی نشانی تو ہم کو دکھائی ہی نہیں گئی۔ اس لیے  کہ وہ ایمان لاناچاہتے  نہ تھے۔ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو کو اختیار کرنے میں یہ جو آزادی ان کو حاصل تھی کہ نفس کی خواہشات و رغبات کے مطابق جس طرح چاہیں کام کریں اور جس چیز میں لذت یا فائدہ محسوس کریں اس کے پیچھے لگ جائیں، اِس کو چھوڑ کر وہ ایسی غیبی حقیقتوں (توحید و آخرت) کو ماننے کے لیے تیار نہ تھے جنہیں مان لینے کے بعد ان کو اپنا سارا نظامِ حیات مستقل اخلاقی اصولوں کی بندش میں باندھنا پڑ جاتا۔