اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر۲٦

یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کر لیا ہوتا کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ  رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے گا،اور جو اس آزمائش میں ناکام  ہو کر غلط راہ پر جانا چاہیں گے انہیں ا س راہ پر جانے اور چلنے کا موقع دیا جائے گا ، تو حقیقت کو آج ہی بے نقاب کر کے سارے اختلافات کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔
یہاں یہ بات ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ عام طور پر آج بھی لوگ اس اُلجھن میں ہیں اور نزول ِ قرآن  کے وقت بھی تھے کہ دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب والا اپنے ہی مذہب کو حق سمجھتا ہے۔ ایسی حالت میں آخر اس فیصلے کی صورت کیا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ  یہ اختلاف ِ مذاہب دراصل بعد کی پیداوار ہے ۔ ابتداء میں تمام نوعِ انسانی کا مذہب ایک تھا اور وہی مذہب حق تھا۔ پھر اس حق میں اختلاف کر کے لوگ مختلف عقیدے اور مذہب بناتے چلے گئے۔ اب اگر اس ہنگامۂ مذاہب کا فیصلہ تمہارے نزدیک عقل و شعور کے صحیح استعمال کے بجائے صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خدا خود حق کو بے نقاب کر کے سامنے لے آئے تو یہ موجودہ دنیوی زندگی میں نہیں ہو گا۔ دنیا کی یہ زندگی تو ہے ہی امتحان کے لیے ، اور یہاں سارا امتحان اِسی بات کا ہے کہ تم حق کو دیکھے بغیر عقل و شعور سے پہچانتے ہو یا نہیں۔