اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر ۲۱

یہ ایک زبردست دلیل ہے اُن کے اِس خیال کی تردید میں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کو خود اپنے دل سے گھڑ کر خدا کی طرف منسوب کر رہے ہیں ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دعوے کی تائید میں کہ وہ کود اس کے مصنف نہیں ہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے بذریعہ وحی ان پر نازل ہو رہا ہے۔ دوسرے تمام دلائل تو پھر نسبتًا دور کی چیز تھے، مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی  تو اُن لوگوں کے سامنے کی چیز تھی۔ آپؐ نے نبوت سے پہلے پورے چالیس سال ان کے درمیان گزارے تھے ۔ ان کے شہر میں پیدا ہوئے ، ان کی آنکھوں کے سامنے بچپن گزرا، جوان ہوئے، ادھیڑ عمر کو پہنچے۔ رہنا سہنا، ملنا چلنا، لین دین، شادی بیاہ، غرض ہر قسم کا معاشرتی تعلق انہی کے ساتھ تھا اور آپؐ کی زندگی  کا کوئی پہلو اُن سے چھپا ہوا نہ تھا۔ ایسی جانی بوجھی اور دیکھی بھالی چیز سے زیادہ کھلی شہادت اور کیا ہو سکتی تھی۔
آپؐ کی اس زندگی میں دو باتیں بالکل عیاں تھیں جنہیں مکہ کے لوگوں میں سے ایک ایک شخص جانتا تھا:
ایک یہ کہ نبوت سے پہلے کی پوری چالیس سالہ زندگی میں آپؐ نے کوئی ایسی تعلیم ، تربیت  اور صحبت نہیں پائی جس سے آپؐ کو وہ معلومات حاصل ہوتیں جن کے چشمے یکایک دعوائے نبوت کے ساتھ ہی آپؐ کی زبان سے پھوٹنے شروع ہو گئے۔ اس سے پہلے کبھی آپؐ اُن مسائل سے دلچسپی لیتے ہوئے، ان مباحث پر گفتگو کرتے ہوئے، اور ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہیں دیکھے گئے جو اب قرآن کی اِن پے درپے سورتوں میں زیر بحث آرہے تھے۔ حد یہ ہے کہ اس پورے چالیس سال کے دوران میں کبھی آپؐ کے کسی گہرے دوست اور کسی قریب ترین رشتہ دار نے بھی آپؐ کی باتوں اور آپؐ کی حرکات و سکنات میں کوئی ایسی چیز  محسوس نہیں کی جسے اُس عظیم الشان دعوت کی تمہید کہا جا سکتا ہو جو آپؐ نے اچانک چالیسویں سال کو پہنچ کر دینی شروع کر دی۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت تھا کہ قرآن آپ کے اپنے دماغ کی پیداوار نہیں ہے ، بلکہ خارج سے آپ کے اندر آئی ہوئی چیز ہے۔ اس لیے کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا جس کے نشونما اور ارتقاء کے واضح نشانات اُس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مکہ کے بعض چالاک لوگوں نے جب خود محسوس کیا کر لیا کہ قرآن کو آپ کے دماغ کی پیداوار قرار دینا صریح طور پر ایک لغو الزام ہے تو آخر  کو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ کوئی اور شخص ہے جو محمدؐ کو یہ باتیں سکھا دیتا ہے۔ لیکن یہ دوسری بات پہلی بات سے بھی زیادہ لغو تھی۔ کیونکہ مکہ تودرکنار ، پورے عرب میں کوئی اس قابلیت کا آدمی نہ تھا جس پر انگلی رکھ کر کہہ دیا جا تا کہ یہ اس کلام کا مصنف ہے یا ہو سکتاہے۔ ایسی قابلیت کا آدمی کسی سوسائٹی میں چھپا کیسے رہ سکتا ہے؟
دوسری بات جو آپؐ کی سابق زندگی میں بالکل نمایاں تھی ، وہ یہ تھی کہ جھوٹ ، فریب ، جعل ، مکاری، عیاری اور اس قبیل کے دوسرے اوصاف میں سے کسی کا ادنیٰ شائبہ تک آپ کی سیرت میں نہ پایا جاتا تھا۔ پوری سوسائٹی میں کوئی ایسا نہ تھا جو یہ کہہ سکتا ہو کہ اس چالیس سال کی یکجائی معاشرت میں آپؐ سے کسی ایسی صفت کا تجربہ اسے ہو ا ہے۔ بر عکس اس کے جن جن لوگوں کو بھی آپؐ سےسابقہ پیش آیا تھا وہ آپؐ کو اک نہایت سچے، بے داغ، اور قابل اعتماد (امین) انسان کی حیثیت  ہی سے جانتے تھے۔ نبوت سے پانچ ہی سال پہلے تعمیر کعبہ کے سلسلہ میں وہ مشہور واقعہ پیش آچکا تھا جس میں حجر اسود کو نصب کرنے کے معاملہ  پر قریش کے مختلف خاندان جھگڑ  پڑے تھے اور آپ میں طے ہوا تھا کہ کل صبح پہلا شخص جو حرم میں داخل ہو گا اسی کو پنچ مان لیا جائے گا۔ دوسرے روز وہ شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم  تھے جو وہاں داخل ہوئے۔ آپ کو دیکھتے ہی سب لوگ پکار اُٹھے   ھذا الامین ، رضینا، ھٰذا محمدؐ۔ ”یہ بالکل راستباز آدمی ہے، ہم اس  پر راضی ہیں۔ یہ تو محمدؐ ہے“۔ اس طرح آپؐ کو نبی مقرر کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ پورے قبیلہ ٔ قریش سے بھرے مجمع میں آپؐ کے ”امین“ ہونے کی شہادت لے چکا تھا۔ اب یہ گمان کرنے کی کیا گنجائش تھی کہ جس شخص نے تمام عمر کبھی اپنی زندگی کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بھی جھوٹ ، جعل اور فریب سے کام نہ لیا تھا وہ یکایک اتنا بڑا جھوٹ اور ایسا عظیم الشان جعل و فریب لے کر اُٹھ کھڑا ہوا کہ اپنے ذہن سے کچھ باتیں تصنیف کیں اور ان کو پورے زور اور تحدِّی کے ساتھ خدا کی طرف منسوب  کرنے لگا۔
 اسی بنا پر اللہ تعالیٰ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان کے اس بیہودہ الزام کے جواب میں ان سے کہو کہ اللہ کے بندو، کچھ عقل سے تو  کام لو، میں کوئی باہر سے آیا ہوا اجنبی آدمی نہیں ہوں، تمہارے درمیان اس سے پہلے ایک عمر گزار چکا ہوں ، میری سابق زندگی کو دیکھتے ہوئے تم کیسے یہ توقع مجھ سے کرسکتے ہو کہ میں خدا کی تعلیم اور اس کے حکم کے بغیر یہ قرآن تمہارے سامنے پیش کر سکتا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ قَصَص، حاشیہ نمبر ۱۰۹