اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر١۳

اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے:
ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی؟ ۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے۔ ہر کام میں ، ہر شعبہ زندگی میں ، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے یں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا۔
یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر ، اُن کو صحیح اور غلط ، حق اور باطل ، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق  راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کے رب کی طرف سے، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے۔
ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کے ایمان کی وجہ سے۔
یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کےنتائج ہیں؟ ۔۔۔۔۔ اُس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات ، تندرستی، قوتِ کار، اور لذتِ زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا  پر موقوف ہوتا ہے۔ لیکن یہ نتائج اُس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو،  بلکہ اُس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس  سےوہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی ، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقو ف ہے، مگر یہ نتائج اُن عقائد کے نہیں جو محض  زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بے کار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں کو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر اندازِ فک اور مذاقِ طبع اور افتادِ مزاج بن جائیں، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں۔ خدا کے قانونِ طبیعی میں وہ شخص جا کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے ، اُن انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اُس کے قانونِ اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے اُن انعامات کا مستحق ہو سکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟