اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر١۰۸

اس مطالبے کی شدت قابل غور ہے۔ بات اِن الفاظ میں بھی ادا ہو سکتی تھی کہ تو”اِس دین کو اختیار کر لے“ یا ”اس دین پر چل“یا” اس دین کا پیرو بن جا“۔ مگر اللہ تعالیٰ کو بیان کے یہ سب پیرایے ڈھیلے ڈھالے نظر آئے۔ اس دین کی جیسی سخت اور ٹھکی اور کسی ہوئی پیروی مطلوب ہے اس کا اظہار ان کمزور الفاظ سے نہ ہو سکتا تھا۔ لہٰذا اپنا مطالبہ ان الفاظ میں  پیش فرمایا کہ ”اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا “۔ اقم وجھک کے لفظی معنی ہیں”اپنا چہرہ جما دے“ اس کا مفہوم یہ ہے کہ تیرا رُخ ایک ہی طرف قائم ہو۔ ڈگمگاتا اور ہِلتا ڈُلتا نہ ہو۔ کبھی پیچھے اور کبھی آگے اور کبھی دائیں وار کبھی بائیں نہ مڑتا رہے۔ بالکل ناک کی سیدھ اُسی راستے پر نظر جمائے ہوئے چل جو تجھے دکھا دیا گیا ہے۔ یہ بندش بجائے خود بہت چُست تھی، مگر اس پر بھی اکتفا نہ کیا گیا۔ اس پر ایک اور قید   حنیفا  کی بڑھا ئی گئی۔حنیف اس کو کہتے ہیں جو سب طرف  سے مڑ کر ایک طرف کا ہو رہا ہو۔ پس مطالبہ یہ ہے کہ اس دین کو ، اِس بندگی خدا کے طریقے کو، اس طرزِ زندگی کو کہ پرستش، بندگی ، غلامی، اطاعت، فرمانبرداری سب کچھ صرف اللہ رب العالمین  ہی کی کی جائے، ایسی یکسوئی کے ساتھ اختیار کر کہ کِسی دوسرے طریقے کی طرف ذرہ برابر میلان و رحجان بھی نہ ہو۔، اس راہ پر آکر اُن غلط راہوں سے کچھ بھی لگاؤ باقی نہ رہے جنہیں تُو چھوڑ کر آیا ہے اور اُن ٹیڑھے راستوں پر ایک غلط انداز نگاہ بھی نہ پڑے جن پر دنیا چلی جا رہی ہے۔