اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر١۰۷

متن میں لفظ  یَتَوَفّٰکُمْ  ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ”جو تمہیں موت دیتا ہے“۔ لیکن اس لفظی ترجمہ سے اصل روح ظاہر نہیں ہوتی ۔ اس ارشاد کی روح یہ ہے کہ ”وہ جس کے قبضے میں تمہاری جان ہے، جو تم پر ایسا مکمل حاکمانہ اقتدار رکھتا ہے کہ جب تک اس کی مرضی ہو اسی وقت تک تم جی سکتے ہو اور جس وقت اس  کا اشارہ ہو جائے اسی آن تمہیں اپنی جان  اُس  جان آفرین کے حوالے کردینی پڑتی ہے، میں صرف اُسی کی پرستش اور اسی کی بندگی و غلامی اور اسی کی اطاعت و رمانبرداری کا قائل ہوں “۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ مشرکینِ مکہ یہ مانتے تھے اور آج بھی ہر قسم کے مشرک یہ تسلیم کرتے ہیں کہ موت صرف اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے ، اس پر کسی دوسرے کا قابو نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جن بزرگوں کو یہ مشرکین خدائی صفات و اختیارات میں شریک ٹھیراتے  ہیں ان کے متعلق بھی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان میں سے کوئی خود اپنی موت کا وقت نہیں  ٹال سکا ہے۔ پس بیان مدعا کے لیے اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات میں سے کسی دوسری صفت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ خاص صفت کہ”وہ جو تمہیں موت دیتا ہے “ یہاں اس لیے انتخاب کی گئی ہے کہ اپنا مسلک بیان کر نے کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح ہونے کی دلیل بھی دے دی جائے۔ یعنی سب کو چھوڑ کر میں اُس کی بندگی  اس لیے کرتا ہوں کہ زندگی و موت پر تنہا اسی کا اقتدار ہے۔ اور اس کے سوا دوسروں کی بندگی آخر کیوں کروں جب کہ وہ خود اپنی زندگی وموت پر بھی اختیار نہیں رکھتے کجا کہ کسی اور کی زندگی و موت کے مختار ہوں۔ پھر کمال بلاغت یہ ہے کہ ”وہ مجھے موت دینے والا ہے“ کہنے کے بجائے”وہ جو تمہیں موت دیتا ہے“ فرمایا۔ اس طرح ایک ہی لفظ میں بیانِ مدعا، دلیل مدعا، اور دعوت الی المدعیٰ، تینوں فائدے جمع کر دیے گئے ہیں۔ اگر یہ فرمایا جا تا کہ”میں اس کی بندگی کرتا ہوں جومجھے موت دینے والا ہے“ تو اس سے صرف یہی معنی نکلتے کہ”مجھے اس کی بندگی کرنی ہی چاہیے“۔ اب جو یہ فرمایاکہ”میں اس کی بندگی کرتا ہوں جو تمہیں موت دینے والا ہے“، تو اس سے یہ معنی نکلے کہ مجھے ہی نہیں ، تم کو بھی اُسی کی بندگی کرنی  ہی چاہیے اورتم  یہ  غلطی کر رہے ہو کہ اس کے سوا د دوسروں کی بندگی کیے جاتے ہو۔