اس رکوع کو چھاپیں

سورة یونس حاشیہ نمبر١۰۲

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو زبردستی مومن بنانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا کرنے سے روک رہا تھا۔ دراصل اس فقرے میں وہی اندازِی بیان اختیار کیا گیا ہے جو قرآن میں بکثرت مقامات پر ہمیں ملتا ہے  ، کہ خطاب بظاہر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے مگر اصل میں لوگوں کو وہ بات سنانی مقصود ہوتی ہے جو نبی کو خطاب کر کے فرمائی جاتی ہے یہاں جو کچھ کہنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ لوگو، حجت اور دلیل سے ہدایت و ضلالت کا فرق کھول کر رکھ دینے اور راہِ راست صاف صاف دکھا دینے کا جو حق تھا وہ تو ہمارے نبی نے پورا پورا ادا کر دیا ہے۔ اب اگر تم خود راست رو بننا چاہتے اور تمہارا سیدھی راہ پر آنا صرف اسی پر موقوف ہے کہ کوئی تمہیں زبر دستی راہِ راست پر لائے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نبی کے سپرد یہ کام نہیں کیا گیا ہے۔ ایسا جبری ایمان اگر اللہ کو منظور ہوتا تو اس کے لیے اُسے نبی بھیجنے کی ضرورت  ہی کیا تھی، یہ کام تو وہ خود جب چاہتا کر سکتا تھا۔