اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۹١

“منافقانہ اظہار ایمان ، جس کی تہ میں فی الواقع تصدیق، تسلیم، اخلاص اور اطاعت نہ ہو، اور جس کے ظاہری اقرار کے باوجود انسان خدا اور اس کے دین کی بہ نسبت اپنے مفاد اور اپنی دنیوی دلچسپیوں کو عزیز رکھتا ہو، اصل حقیقت کے اعتبار سے کفر و انکار ہی ہے۔ خدا کےہاں ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ ہو گا جو منکروں اور باغیوں کے ساتھ ہوگا، چاہے دنیا میں اس قسم کے لوگ کافر نہ ٹھیرائے جا سکتے ہوں اور ان کے ساتھ مسلمانوں ہی کا سا معاملہ ہوتا رہے۔ اس دنیوی زندگی میں جس قانون پر مسلم سوسائٹی کا نظام قائم کیا گیا ہے اور جس ضابطہ کی بنا پر اسلامی حکوتم اور اس کے قاضی احکام کی تنقید کرتے ہین ، اس کے لحاظ سے تو منافقت پر کفر یا اشتباہ ِ کفر کا حکم صرف انہی صورتوں میں لگایا جا سکتا ہے جبکہ انکار و بغاوت یا غداری و بے وفائی کا اظہار صریح طور پر ہو جائے۔ اس لیے منافقت کی بہت سی صورتیں اور حالتیں ایسی رہ جاتی ہیں جو قضائے شرعی میں کفر کے حکم سے بچ جاتی ہیں۔ لیکن قضائے شرعی میں کسی منافق کا حکمِ کفر سے بچ نکلنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ قضائے خداوندی میں بھی وہ اس حکم اور اس کی سزا سے بچ نکلے گا۔