اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۸۸

تبوک سے واپسی پر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ عبداللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین مر گیا۔ اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ جو مخلص مسلمانوں میں سے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کفن میں لگانے کے لیے آپ کا کُرتہ مانگا۔ آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ عطا کر دیا۔ پھر انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہی اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں۔ آپ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ حضرت عمر ؓ نے باصرار عرض کیا کہ یا رسول ؐ اللہ ، کیا آپ اس شخص پر نماز جنازہ پڑھیں گے جو یہ اور یہ کر چکا ہے۔ مگر حضورؐ  ان کی یہ سب باتیں سن کر مسکراتے رہے اور اپنی اُس رحمت کی بنا پر جو دوست دشمن سب کے لیے عام تھی، آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں بھی دعائے مغفرت کرنے میں تامل نہ کیا۔ آخر جب آپ نماز پڑھانے کھڑے ہی ہو گئے  تو یہ آیت نازل ہوئی اور براہِ راست حکم خداوندی سے آپ کو روک دیا گیا۔ کیونکہ اب یہ مستقل پالیسی مقرر کی جا چکی تھی کہ مسلمانوں کی جماعت میں منافقین کو کسی طرح پنپنے نہ دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے اس گروہ کی ہمت افزائی ہو۔
اسی سے یہ مسئلہ نکلا کہ فساق اور فجار اور مشہور بفسق لوگوں کی نماز جنازہ مسلمانوں کے امام اور سربر آوردہ  لوگوں کو نہ پڑھانی چاہیے نہ پڑھنی چاہیے۔ ان آیات کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ ہو گیا تھا کہ جب آپ کو کسی جنازے پر تشریف لانے کے لیے کہا جاتا تو آپ پہلے مرنے والے کے متعلق دریافت فرماتے تھے کہ کس قسم کا آدمی تھا، اور اگر معلوم ہوتا کہ بُرے چلن کا آدمی تھا تو آپ اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں اختیار ہے ، جس طرح چاہو اسے دفن کر دو۔