اس وقت تک منافقین کے ساتھ زیادہ تر درگزر کا معاملہ ہو رہا تھا ، اور اسکے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ابھی اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ باہر کے دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دشمنوں سے بھی لڑائی مول لے لیتے۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے جولوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے ان کو ایمان و یقین حاصل کرنے کے لیے کافی موقع دینا مقصود تھا۔ یہ دونوں وجوہ اب باقی نہیں رہے تھے۔ مسلمانوں کی طاقت اب تمام عرب کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی اور عرب سے باہر کی طاقتوں سے کشمکش کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اس لیے ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنا اب ممکن بھی تھا اور ضروری بھی ہو گیا تھا ، تا کہ یہ لوگ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر کے ملک میں کوئی اندرونی خطرہ نہ کھڑا کر سکیں۔ پھر ان لوگوں کو پورے ۹ سال تک سوچنے، سمجھنے اور دین ِ حق کو پرکھنے کا موقع بھی دیا جا چکا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اگر ان میں واقعی خیر کی کوئی طلب ہوتی ۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مزید رعایت کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اس لیے حکم ہو اکہ کفار کے ساتھ ساتھ اب اِن منافقین کے خلاف بھی جہاد شروع کر دیا جائے اور جو نرم رویہ اب تک ان کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا رہا ہے ، اسے ختم کر کے اب ان کے ساتھ سخت برتاؤکیا جائے۔ |