اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۵٦

“مدینہ کے یہ منافق زیادہ تر بلکہ تمام تر مالدار اور سن رسیدہ لوگ تھے۔ ابنِ کثیر نے البِدایہ و النِّہایہ میں ان کی جو فہرست دی ہے اس میں صرف ایک نوجوان کا ذکر ملتا ہے اور غریب ان میں سے کوئی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ مدینہ میں جائدادیں اور پھیلے ہوئے کاروبار رکھتے تھے اور جہاندیدگی نے ان کو مصلحت پرست بنا دیا تھا۔ اسلام جب مدینہ پہنچا اور آبادی کے ایک بڑے حصہ نے پورے اخلاص اور جوش ایمانی کے ساتھ اسلام قبول کر لیا، تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو ایک عجیب مخمصہ میں مبتلا پایا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو خود ان کے اپنے قبیلوں کی اکثریت بلکہ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں تک کو اس نئے دین نے ایمان کے نشے  سے سرشار کر دیا ہے۔ ان کے خلاف اگر وہ کفر و انکار پر قائم رہتے ہیں تو ان کی ریاست ، عزت ، شہرت سب خاک میں ملی جاتی ہے حتیٰ کہ ان کے اپنے گھروں میں ان کے خلاف بغاوت برپا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف اس دین کا ساتھ دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ سارے عرب سے بلکہ اطراف  و نواح کی قوموں اور سلطنتوں سے بھی لڑائی مول لینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اغراض نفسانی کی بندگی نے معاملہ کے اس پہلو پر نظر کرنے کی استعداد تو ان کے اندر باقی ہی نہیں رہنے دی تھی کہ حق اور صداقت بجائے خود بھی کوئی قیمتی چیز ہے جس کے عشق میں انسان خطرات مول لے سکتا ہے اور جان و مال کی قربانیاں گوارا کر سکتا ہے۔ وہ دنیا کےسارے معاملات و مسائل پر صرف مفاد اور مصلحت ہی کے محاظ سے نگاہ ڈالنے کے خوگر ہو چکے تھے۔ اس لیے ان کو اپنے مفاد کے تحفظ کی بہترین صورت یہی نظر آئی کہ ایمان کا دعویٰ کریں تاکہ اپنی قوم کے درمیان اپنی ظاہری عزت اور اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھ  سکیں ، مگر مخلصانہ ایمان نہ اختیار کریں تاکہ اُن خطرات و نقصانات سے دوچار نہ ہوں جو اخلاص کی راہ اختیار کرنے سے لازمًا پیش آنے تھے۔ ان کی اسی ذہنی کیفیت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ تمہارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نقصانات کے خوف نے انہیں زبردستی تمہارے ساتھ باندھ دیا ہے ۔ جو چیز انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرائیں وہ صرف یہ خوف ہے کہ مدینہ میں رہتے ہوئے علانیہ غیر مسلم بن کر رہیں تو جاہ و منزلت ختم ہو تی ہے اور بیوی بچوں تک سے تعلقات منقطع ہو جاتے  ہیں۔  مدینہ کوچھوڑ دیں تو اپنی جائدادوں اور تجارتوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے ، اور ان کے اندر کفر کے لیے بھی اتنا اخلاص نہیں ہے کہ اس کی خاطر وہ ان نقصانات کو برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں۔ اس مخمصے نے انہیں کچھ ایسا پھانس  رکھا ہے کہ مجبورًا مدینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، بادل نا خواستہ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور زکوٰۃ کا ”جرمانہ“ بھگت رہے ہیں، ورنہ آئے دن جہاد اور آئے دن کسی نہ کسی خوفناک دشمن کے مقابلے اور آئے دن جان و مال کی قربانیوں کے مطالبے کی جو ”مصیبت“ان پر پڑی ہوئی ہے اس سے بچنے کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ اگر کوئی سُوراخ یا بل بھی ایسا نظر آجائے جس میں انہیں امن ملنے کی امید ہو تو یہ بھاگ کر اس میں گھس بیٹھیں۔