اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۵۲

منافقین حسب عادت اس موقع پر بھی کفر  و اسلام کی اس کشمکش میں حصہ لینے کےبجائے اپنی دانست میں کمال دانشمندی کے ساتھ دور بیٹھے ہوئے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس کشمکش کا انجام کیا ہوتا ہے، رسول اور اصحاب رسول فتحیاب ہو کر آتے ہیں یا رومیوں کی فوجی طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ اس کا جواب انہیں یہ دیا گیا ہے کہ جن د و نتیجوں میں سے ایک کے ظہور کا تمہیں انتظار ہے ، اہلِ ایمان کے لیے تو وہ دونوں ہی سراسر بھلائی ہیں۔ وہ اگر فتحیاب ہوں تو اس کا بھلائی ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن اگر اپنے مقصد کی راہ میں جانیں لڑاتے ہوئے وہ سب کے سب پیوندِ خاک ہو جائیں تب بھی دنیا کی نگاہ میں چاہے یہ انتہائی ناکامی ہو مگر حقیقت میں یہ بھی ایک دوسری کامیابی ہے۔ اس لیے کہ مومن کی کامیابی و ناکامی کا معیار یہ نہیں ہے کہ اس نے کوئی ملک فتح کیا  یا نہیں ، یا کوئی حکومت قائم کر دی یا نہیں بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ اس نے اپنے خدا کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے اپنے دل و دماغ اور جسم و جان کی ساری قوتیں لڑادیں  یا نہیں۔ یہ کام اگر اس نے کر دیا تو درحقیقت وہ کامیاب ہے، خواہ دنیا کے اعتبار سے اس کی سعی کا نتیجہ صفر ہی کیوں نہ ہو۔