اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۵١

”یہاں دنیا پرست اور خدا پرست کی ذہنیت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔ دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے ۔یہ مقاصد اسے حاصل ہو جائیں تو ہو پھول جاتا ہے اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مردنی چھا جاتی ہے۔ پھر اُس کا سہارا تمام تر مادّی اسباب پر ہوتا ہے ۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے اور ناسازگار ہو تے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے ۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کام میں اس کا بھروسہ اپنی قوت یا مادّی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔ راہِ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ  جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہو رہی ہے ۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کر سکتیں ۔کیونکہ  اوّل تو دونوں  کو وہ اپنے حق میں خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گذر جائے۔ دوسرے اس کے پیشِ نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کر ے۔ اس کے سامنے تو رضائے الہٰی کا مقصدِ وحید ہوتا ہے اور اس مقصد     سے اس کے قریب یادور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصوں نہیں ہے بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا ۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کر دیا ہو تو خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی ہَر گئی ہو لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگار حالات  میں بھی  اُسی عزم وہمت  کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہلِ دنیا سے صرف  سازگار حالات ہی میں ہوا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملہ سے بنیادی طور پر  مختلف ہے ۔ تمہاری خوشی و رنج کے قوانین کچھ اور ہیں اور ہمارے کچھ اور تم اطمینان اور بے اطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذسے۔