اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۳۷

عرب میں نَسِی دو طرح کی تھی ۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ و جدل اور غارت گری اور خون کے انتقام لینے کی خاطر کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام کر کے حرام مہینوں کی تعداد پوری کر دیتے تھے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبِیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے ، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ اُن زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کےمطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں۔ اس طرح ۳۳ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہو تا رہتا تھا  اور صرف چونتیسویں سال ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ۹ – ۱۰ تاریخ کو ادا ہوتا تھا ۔ یہی وہ بات ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےخطبہ میں فرمائی تھی کہ ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوٰت والارض۔ یعنی اِس سال حج کا وقت گردش  کرتا ہو اٹھیک اپنی اس تاریخ پر آگیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے۔
اس آیت میں نَسی کو حرام اور ممنوع قرار دےکر جہلائے  عرب کی ان دونوں اغراض کو باطل کر دیا گیا ہے ۔ پہلی غرض تو ظاہر ہے کہ صریح طور پر ایک گناہ تھی۔ اُس کے تو معنی ہی یہ تھے کہ خداکے حرام کیے ہوئے کو حلا ل بھی کر لیا جائے اور پھر حیلہ بازی کر کے پابندی قانون کی ظاہری شکل بھی بنا کر رکھ دی جائے۔ رہی دوسری غرض تو سرسری نگاہ میں وہ معصوم اور مبنی بر مصلحت نظر آتی ہے ، لیکن درحقیقت وہ بھی خدا کے قانون سے بدترین بغاوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لیے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے بندے زمانے کی تما م گردشوں میں، ہر قسم کے حالات اور کیفیات میں اُس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں۔ مثلاً رمضان ہے، تو وہ کبھی  گرمی میں اور کبھی برسات میں اور کبھی سردیوں میں آتا ہے، اور اہلِ ایمان اِن سب بدلتے ہوئے حالات میں روزے رکھ کر فرمانبرداری  کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں ۔ اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اور ان سب  طرح کے اچھے اور بُرے حالات میں خدا کی رضا کے لیے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اُترتے ہیں اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی گروہ اپنے سفر اور اپنی تجارت اور اپنے میلوں ٹھیلوں کی سہولت کی خاطر حج کو  کسی خوشگوار موسم میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دے ، تو یہ ایسا ہی  ہے جیسے مسلمان کوئی کانفرنس  کر کے طے کر لیں کہ آئندہ سے رمضان کا مہینہ دسمبر یا جنوری کے مطابق کر دیا جائے گا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں  کہ بندوں نے اپنے خدا سے بغاوت کی اور خودمختار بن بیٹھے۔ اسی چیز کا نام کفر ہے ۔ علاوہ بریں ایک عالمگیر دین جو سب انسانوں  کے لیے ہے، آخر کس شمسی مہینے کو روزے اور حج کے لیے مقرر کرے؟ جو مہینہ بھی مقرر کیا جائے گا وہ زمین کے تمام باشندوں کے لیے یکساں سہولت کا موسم نہیں ہو سکتا۔ کہیں وہ گر می کا زمانہ ہو گا اور کہیں سردی کا ۔ کہیں وہ بارشوں کا موسم ہوگا اور کہیں خشکی کا۔ کہیں فصلیں کاٹنے کا زمانہ ہوگا اور کہیں بونے کا۔
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نسی کی منسُوخی کا یہ اعلان سن ۹ ھجری کے حج کے موقع پر کیا گیا۔ اور اگلے سال سن ۱۰ ھجری کا حج ٹھیک اُن تاریخوں میں ہُوا جو قمری حساب کے مطابق تھیں۔ اس کے بعد سے آج تک حج اپنی صحیح تاریخوں میں ہورہا ہے۔