اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۲۹

عُزَیر سے مراد عَزرا() ہیں جن کو یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں۔ ان کا زمانہ سن ۴۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرتت سلیمان ؑ کے بعد جو دَور ابتلاء بنی اسرائیل پر آیا اس میں نہ صرف یہ کہ توراۃ دنیا سے گم ہو گئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے   اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت ، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان، عبرانی تک سے نا آشنا کر دیا تھا۔ آخر کار انہی عزیر یا عزرا نے بائیبل کے پُرانے عہد نامے کو مرتب کیا ، اور شریعت کی تجدید کی۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم اس حد تک بڑھ گئی  کہ بعض یہودی گروہوں نے ان کو ابن اللہ تک بنا دیا۔ یہاں قرآن مجید کے ارشاد کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام یہودیوں نے بالاتفاق عزرا کا ہن کو خدا کا بیٹا بنایا ہے بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا کے متعلق یہودیوں کے اعتقادات میں جو خرابی رونما ہوئی وہ اس حد تک ترقی کر گئی کہ عزرا کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے بھی ان میں پیدا ہوئے۔