اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر۲٦

”اگرچہ اہلِ کتاب خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں لیکن فی الواقع نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر۔ خدا پر ایمان رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی بس اس بات کو مان لے کہ خدا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خدا کو الٰہِ واحد اور ربِّ واحد تسلیم کر ے اور اس کی ذات ، اس کی صفات، اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں نہ خود شریک بنے نہ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ لیکن نصاریٰ اور یہود دونوں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسا کہ بعد والی آیات میں بتصریح بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کا خدا کو ماننا بے معنی ہے اور اسے ہرگز ایمان باللہ  نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح آخرت کو ماننے کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی یہ بات مان لے کہ ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے جائیں گے ، بلکہ اس کے ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ، اور کسی بزرگ سے منتسِب ہونا کام نہ آئے گا اور نہ ک وئی کسی کا کفارہ بن سکے گا، خدا کی عدالت میں بے لاگ انصاف ہو گا اور آدمی کے ایمان و عمل کے سوا کسی چیز کا لحاظ نہ رکھا جائے گا۔ اس عقیدے کے بغیر آخرت کو ماننا لا حاصل ہے ۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اسی پہلو  سے اپنے عقیدے کو خراب کر لیا ہے۔ لہٰذا ان کا ایمان بالآخر ت  بھی مسلّم نہیں ہے۔