اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١٦

اب تقریر کا رُخ مسلمانوں کی طرف پھرتا ہے ا ور ان کو جنگ پر ابھارنے اور دین کے معاملہ میں کسی رشتہ و قرابت اور کسی دنیوی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کی پُر زور تلقین کی جاتی ہے ۔ اس حصہ تقریر کی پوری رُوح  سمجھنے کے لیے پھر ایک مرتبہ اُس صورت حال کو سامنے رکھ لینا چاہیے جو اُس وقت درپیش تھی۔ اس میں شک نہیں  کہ اسلام اب ملک کے ایک بڑے حصہ پر چھا گیا تھا اور عرب میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ رہی تھی جو اس کو دعوت مبارزت دے سکتی ہو ، لیکن پھر بھی جو فیصلہ کن قدم اور انتہائی انقلابی قدم اس موقع پر اُٹھایا جا رہا تھا اس کے اندر بہت سے خطرناک پہلو ظاہر بین نگاہوں کو نظر آرہے تھے:
          اوّلاً تمام مشرک قبائل کو بیک وقت معاہدات کی منسوخی کا چیلنج دے دینا، پھر مشرکین کے حج کی بندش ، کعبے کی تولیت میں تغیر، اور رسوم جاہلیت کا کلّی انسداد یہ معنی رکھتا تھا کہ ایک مرتبہ سارے ملک میں آگ سی لگ جائے اور اور مشرکین و منافقین اپنا آخری قطرۂ خون تک اپنے مفادات اور تعصبات کی حفاظت کے لیے بہا دینے پر آمادہ ہو جائیں۔
          ثانیًا حج کو صرف اہل توحید کے لیے مخصوص کر دینے اور مشرکین پر کعبے کا راستہ بند کر دینے کے معنی یہ تھے کہ ملک کی آبادی کا ایک معتدبہ حصہ ، جو ابھی مشرک تھا ، کعبہ کی طرف اُس نقل و حرکت سے باز رہ جائے جو صرف مذہبی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ معاشی حیثیت سے بھِ عرب میں غیر معمولی حیثیت رکھتی تھی اور جس پر اُس زمانہ میں عرب کی معاشی زندگی کا بہت بڑا انحصار تھا۔
          ثالثًا جو لوگ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ان کے لیے یہ معاملہ بڑی کڑی آزمائش کا تھا کیونکہ ان کے بہت سے بھائی بند، عزیز اقارب ابھی تک مشرک تھے اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے مفاد قدیم نطام جاہلی کے مناصب سے وابستہ تھے۔ اب جو  بظاہر تمام مشرکین عرب کا تہس نہس کر ڈالنے کی تیاری کی جا رہی تھی تو اس کے معنی یہ تھے کہ یہ نئے مسلمان خود اپنے ہاتھوں اپنے خاندانوں اور اپنے جگر گوشوں کو پیوند خاک کریں اور ان کے جاہ و منصب اور صدیوں کے قائم شدہ امتیازات کا خاتمہ کردیں۔
اگرچہ فی الواقع اِن میں سے کوئی خطرہ بھی عملًا بروئے کار نہ آیا۔ اعلانِ براءَت سے ملک میں حربِ کلّی کی آگ بھڑکنے کے بجائے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ تمام اطراف و اکناف عرب سے بچے کھچے مشرک قبائل اور امراء و ملوک کے وفد آنے شروع ہو گئے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسلام و اطاعت کا عہد کیا اور ان کے اسلام قبول کر لینے پر  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو اس کی پوزیشن پر بحال رکھا۔ لیکن جس وقت اِس نئی پالیسی کا اعلان کیا جا رہا تھا اُس وقت تو بہر حال کوئی بھی اِس نتیجہ کو پیشگی نہ دیکھ سکتا تھا۔ نیز یہ کہ اس اعلان کے ساتھ ہی اگر مسلمان اسے بزور نافذ کر نے کے لیے پوری طرح تیار نہ ہو جاتے تو شاید یہ نتیجہ برآمد بھی نہ ہو تا ۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کو اس موقع پر جہاد فی سبیل اللہ کی پر جوش تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے اُن تمام اندیشوں کو دور کر دیا جاتا جو اس پالیسی پر عمل کرنے میں ان کو نظر آرہے تھے اور ان کو ہدایت کی جاتی کہ اللہ کی مرضی پوری کرنے میں انہیں کسی چیز کی پروا نہ کرنی چاہیے ۔ یہی مضمون اس تقریر کا موضوع ہے۔