اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١۵

اس جگہ سیاق و سبا ق خود بتا رہا ہے کہ قسم اور عہد و پیمان سے مراد کفر چھوڑ کر اسلام قبول کر لینے کا عہد ہے۔  اس لیے کہ اُن لوگوں سے اب کوئی اور معاہدہ کرنے کا تو کوئی سوال باقی ہی نہ رہا تھا۔ پچھلے سارے معاہدے وہ توڑ چکے تھے۔ اُن کی عہد شکنیوں کی بنا پر ہی اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے برأت کا اعلان اُنہیں صاف صاف سنایا جا چکا تھا۔ یہ بھی فرما دیا گیا تھا کہ آخر ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ اور یہ فرمان بھی صادر ہو چکا تھا کہ اب انہیں صرف اسی صورت میں چھوڑا جا سکتا ہے کہ یہ کفر و شرک سے توبہ کر کے اقامتِ صلوٰۃ اور اِیتائے زکوٰۃ کی پابندی قبول کر لیں اس لیے یہ آیت مرتدین سے جنگ کے معاملہ میں بالکل صریح ہے۔ دراصل اس میں اُس فتنۂ ارتداد کی طرف اشارہ ہے جو ڈیڑھ سال بعد خلافتِ صدیقی کی ابتداء میں برپا ہوا ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اس موقع پر جو طرزِ عمل اختیار کیا وہ ٹھیک اس ہدایت کے مطابق تھا جو اس آیت میں پہلے ہی دی جا چکی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ”مرتد کی سزا اسلامی قانون میں“)۔