اس آیت کا منشا سمجھنے کے لیے اِسی سورۃ کی آیت ۹۷ پیش نظر رکھنی چاہیے جس میں فرمایا گیا کہ:
”بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اُس دین کی حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے“۔
وہاں صرف اتنی بات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا تھا کہ دارالاسلام کی دیہاتی آبادی کا بیشتر حصہ مرض نفاق میں اس وجہ سے مبتلا ہے کہ یہ سارے کے سارے لوگ جہالت میں پڑے ہوئے ہیں، علم کے مرکز سے وابستہ نہ ہونے اور اہلِ علم کی صحبت میسر نہ آنے کی وجہ سے اللہ کے دین کی حدود ان کو معلوم نہیں ہیں۔ اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ دیہاتی آبادیوں کو اس حالت میں پڑا نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان کی جہالت کو دور کرنے اور ان کے اندر شعور اسلامی پیدا کرنے کا اب باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔ اس غرض کے لیے یہ کچھ ضروری نہیں کہ تمام دیہاتی عرب اپنے اپنے گھروں سے نکل نکل کر مدینے آجائیں اور یہاں علم حاصل کریں ۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ ہر دیہاتی علاقے اور ہر بستی اور قبیلے سے چند آدمی نکل کر علم کے مرکزوں ، مثلًا مدینے اور مکے اور ایسے ہی دوسرے مقامات میں آئیں اور یہاں دین کی سمجھ پیدا کریں، پھر اپنی اپنی بستیوں میں واپس جائیں اور عامۃ الناس کے اندر بیداری پھیلانے کی کوشش کریں۔
یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو تحریک اسلامی کو مستحکم کرنے کے لیے ٹھیک موقع پر دی گئی۔ ابتدا میں جبکہ اسلام عرب میں بالکل نیا نیا تھا اور انتہائی شدید مخالفت کے ماحول میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا، اس ہدایت کی کوئی ضرورت نہ تھی ، کیونکہ اس وقت تو اسلام قبول کرتا ہی وہ شخص تھا جو پوری طرح اسے سمجھ لیتا تھا اور ہر پہلو سے اس کو جانچ پرکھ کر مطمئن ہو جاتا تھا ۔ مگر جب یہ تحریک کامیابی کے مرحلوں میں داخل ہوئی اور زمین میں اس کا اقتدار قائم ہو گیا تو آبادیاں کی آبادیاں فوج در فوج اس میں شامل ہونے لگیں جن کے اندر کم لوگ ایسے تھے جو اسلام کو اس کے تمام مقتضیات کے ساتھ سمجھ بوجھ کر اس پر ایمان لاتے تھے، ورنہ بیشتر لوگ محض وقت کے سیلاب میں غیر شعوری طور پر بہے چلے آرہے تھے۔ نو مسلم آبادی کا یہ تیز رفتار پھیلاؤ بظاہر تو اسلام کے لیے سبب قوت تھا، کیونکہ پیرو ان اسلام کی تعداد بڑھ رہی تھی، لیکن فی الحقیقت اسلامی نظام کے لیے ایسی آبادی کسی کام کی نہ تھی بلکہ اُلٹی نقصان دہ تھی جو شعور اسلامی سے خالی ہو اور اس نظام کے اخلاقی مطالبات پورے کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ چنانچہ یہ نقصان غزوۂ تبوک کی تیاری کے موقع پر کھل کر سامنے آگیا تھا۔ اس لیے عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی کہ تحریک اسلامی کی توسیع جس رفتار کے ساتھ ہو رہی ہے اسی کی مطابق اس کے استحکام کی تدبیر بھی ہونی چاہیے ، اور وہ یہ ہے کہ ہر حصۂ آبادی میں سے چند لوگوں کو لے کر تعلیم و تربیت دی جائے ، پھر وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر عووام کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں اسلام کا شعور اور حدود اللہ کا علم پھیل جائے۔
یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم عمومی کے جس انتظام کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے اس کا اصل مقصد عامۃ الناس کو محض خواندہ بنانا اور ان میں کتاب خوانی کی نوعیت کا علم پھیلانا نہ تحا بلکہ واضح طور پر اس کا مقصدِ حقیقی یہ متعین کیا گیا تھا کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار و خبردار کر دیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویۂ زندگی سے بچنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی تعلیم کا وہ مقصد ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرمادیا ہے اور ہر تعلیمی نظام کو اسی لحاظ سے جانچا جائے گا کہ وہ اس مقصد کو کہاں تک پورا کرتا ہے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام لوگوں میں نوشت و خواند اور کتاب خوانی اور دنیوی علوم کی واقفیت پھیلانا نہیں چاہتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام لوگوں میں ایسی تعلیم پھیلانا چاہتا ہے جو اوپر کے خط کشیدہ مقصد تک پہنچاتی ہو ۔ ورنہ ایک ایک شخص اگر اپنے وقت کا آئن شتائن اور فرائڈ ہو جائے لیکن دین کے فہم سے عاری اور غیر مسلمانہ رویّۂ زندگی میں بھٹکا ہوا ہو تو اسلام ایسی تعلیم پر لعنت بھیجتا ہے۔ اس آیت میں لفظ لِیَتَفَقَّھُؤا فِی الدِّیْنِ جو استعمال ہوا ہے اس سے بعد کے لوگوں میں ایک عجیب غلط فہمی پیدا ہو گئی جس کے زہریلے اثرات ایک مدّت تک مسلمانوں کی مذہبی تعلیم بلکہ ان کی مذہبی زندگی پر بھی بُری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو تَفَقُّہُ فِی الدِّیْنِ کو تعلیم کا مقصود بتایا تحا جس کے معنی ہیں دین کو سمجھنا، اس کے نظام میں بصیرت حاصل کرنا ، اس کے مزاج اور اس کی رُوح سے آشنا ہونا، اور اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کونسا طریقِ فکر اور کونسا طرزِ عمل روح دین کے مطابق ہے۔ لیکن آگے چل کر جو قانونی علم اسطلاحًا فقہ کے نام سے موسوم ہوا اور جو رفتہ رفتہ اسلامی زندگی کی محض صورت (بمقابلہ ٔ روح) کا تفصیلی علم بن کر رہ گیا ، لوگوں نے اشتراکِ لفظی کی بنا پر سمجھ لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کا حاصل کرنا حکم الہٰی کے مطابق تعلیم کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ وہ کُل مقصود نہیں بلکہ محض ایک جزو ِ مقصودتھا۔ اس عظیم الشان غلط فہمی سے جو نقصانات دین اور پیروان ِ دین کو پہنچے ان کا جائزہ لینےکے لیے تو ایک کتاب کی وسعت درکار ہے۔ مگر یہاں ہم اس پر متنبہ کرنے کے لیے مختصراً اِتنا اشارہ کیے دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو جس چیز نے روح دین سے خالی کر کے محض جسم دین اور شکل دین کی تشریح پر مرتکز کر دیا، اور بالآخر جس چیز کی بدولت مسلمانوں کی زندگی میں ایک نِری بے جان ظاہر داری ، دین داری کی آخری منزل بن کر رہ گئی، وہ بڑی حد تک یہی غلط فہمی ہے۔