”کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازمًا یہ معنی رکھتی ہے کہ اوّل تو ہم اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابلِ معافی سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اُس شخص کے معاملہ میں تو درست ہیں جو وفادار وں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گناہ گار ہو۔ لیکن جو شخص کُھلا ہُوا باغی ہو اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا نہ صرف یہ کہ اصولًا غلط ہے بلکہ اس سے خود ہماری اپنی وفاداری مشتبہ ہو جاتی ہے ۔ اور اگر ہم محض اس بنا پر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے، یہ چاہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے ، اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بے لاگ نہیں ہے ، اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگا رکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کر لے اور ہمارے رشتہ دار کو تو ضرو ر بخش دے خوا ہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے ۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں ، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اُس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو ، خدا کا دوست ہمارا دوست ہو اور اس کا دشمن ہمارا دشمن۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ”مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو“ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ” تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو“۔ یعنی ہمارے منع کرنے سے اگر تم باز رہے تو کچھ بات نہیں، تم میں تو خود وفاداری کی حِس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو۔ |