اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١۰٦

یہاں ایمان کے اُس معاملے کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے ، بیع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک مابعد الطبعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے معاوضہ   میں خدا کی طرف سے اِس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ  مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع کی حقیقیت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔
جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیونکہ وہی اُس کا اور اُن ساری چیزوں کا خالق ہے جو اُس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کررہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید و فروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اُسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نےکلیۃً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار یعنی اس کا اپنے انتخاب وارادہ میں آزاد ہونا () اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری  تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہو  جاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کر دے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور اُن اقتدارات کا  جو اسے دنیا میں حاصل ہیں ،  مالک ہو گیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے  کہ ان چیزوں جو جس طرح چاہے استعمال کرے ۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی  جبر کے بغیر وہ خود اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خد ا کے حقوق ِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر اپنے حدودِ اختیار میں اپنے حسب منشا تصرف  کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے۔ بلکہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تُو برضا و رغبت (نہ کہ بمجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھرا س میں خود مختار مالک کی حیثیت  سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کر لے ، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خود بخود دست بردار ہو جا۔ اس طرح اگر  تُو دنیا کی موجودہ  عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو ( جو تیری حاصل کر دہ نہیں بلکہ میری عطا کر دہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کر دے گا تو میں تجھے بعد کی اودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادار کروں گا ۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کر لے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے۔ اور جو شخص اس سے انکار کر دے ، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے، وہ کافر ہے اور  اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔
بیع کی اِس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضمُّنات کا تجزیہ کیجیے:
(۱) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ  جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اُس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہو  جائے۔
(۲) دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے  اس کی رو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضیِ شرع کسی کے غیر مومن یا خارج از ملت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت کہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اُس کے حق میں اپنے ادعائے ملکیت سے کلیۃً دست بردار ہو جائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا ، اپنے دل و ماغ  اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہو سکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے، مگر خدا کے ہاں یقینًا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا کیونکہ اس نےخدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ  سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآ ن کی رو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اُس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا ، یہ دونوں طرزِ عمل ایسے ہین جو اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے ، یا بیع کا معاہدہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔
(۳) ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی  اورکافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الّا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہو جائے اور وہ خد ا کے ساتھ اپنے معاہدہ ٔ بیع کو بھول کر کوئی خودمختارانہ حرکت کر بیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ  اہلِ ایمان سے مرکب ہو وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب ، کوئی طریقِ معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویّہ خدا  کی مرضی  اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کرسکتا۔ اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہو گا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویہ کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں ، بہر حال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے خواہ اس پر چلنے والے لوگ ”مسلمان“  کے نام سے موسوم ہوں یا ”غیر مسلم“ کے نام سے۔
(۴) اس بیع کی روسے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا کود بتائے ۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرالینا اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی  کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدہ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا رویہ ٔزندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔
یہ اس بیع کے تضمنات ہیں ، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خرید و فروخت کے معاملہ میں قیمت(یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمہ پر کیوں موخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اِس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ”بائع نے اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا“۔ بلکہ وہ اِس عمل کا معاوضہ ہے کہ”بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خودمختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے“۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہو گی جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہو جائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدۂ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحہ تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروئے انصاف قیمت پانے کا  مستحق نہیں ہو سکتا۔
اِن امور کی توضیح کے ساتح یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سلسلہ ٔ بیان میں یہ مضمون کس مناسبت سے آیا ہے ۔ اوپر سے جو سلسلۂ تقریر چل رہا تھا اُس میں اُن لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا۔ مگر جب امتحان کا نازک موقع آیا تو ان میں سے بعض نے تساہل کی بنا پر ، بعض نے اخلاص کی کمی کی وجہ سے، اور بعض نے قطعی منافقت کی راہ سے خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنے وقت، اپنے مال، اپنے مفاد اور اپنی جان کو قربان کرنے میں دریغ کیا ۔لہٰذا ان مختلف اشخاص اور طبقوں کے رویّہ پر تنقید کرنے کے بعد اب ان کو صاف صاف بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایمان ، جسے قبول کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے، محض یہ مان لینے کا نام نہیں ہے کہ خدا ہے اور وہ ایک  ہے، بلکہ دراصل وہ اس امر کا اقرار ہے  کہ خدا ہی تمہارے نفس اور تمہارے مال کا مالک ہے ، پس یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم اِس نفس و مال کو خدا کے حکم پر قربان کر نے سے جی چراتے ہو ، اور دوسری طرف اپنے نفس کی قوتوں کو اور اپنے ذرائع کو  خدا کے منشا کے خلاف استعمال کرتے ہو ، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تم اپنے اقرار میں جھوٹے ہو ۔ سچے اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو واقعی اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ چکے ہیں اور اسی کو ان چیزوں کا مالک سمجھتے ہیں ۔ جہاں اس کا حکم ہوتا ہے وہاں انہیں بے دریغ قربان کرتے ہیں، اور جہاں اس کا حکم نہیں ہوتا وہاں نفس کی طاقتوں کا کوئی ادنیٰ سا جز اور مالی ذرائع کا کوئی ذرا سا حصہ بھی خرچ کرنے  کے لیے تیار نہیں ہوتے۔