اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١۰۳

متن میں لفظ”جُرُف“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق عربی زبان میں کسی ندی یا دریا کے اُس کنارے  پر ہوتا ہے جس کے نیچے کی مٹی کو پانی نے کاٹ کاٹ کر بہا دیا ہو اور اوپر کا حصہ بے سہارا کھڑا ہو۔  جو لوگ اپنے عمل کی بنیاد خدا سے بے خوفی اور اس کی رضا سے بے نیازی پر رکھتے ہیں ان کی تعمیر حیات کو یہاں اُس عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے ایک کھوکھلے بے ثبات کنارۂ دریا پر اُٹھائی گئی ہو ۔ یہ ایک بے نظیر تشبیہ ہے جس سے زیادہ بہتر طریقہ سے اِس صورت حال کی نقشہ کشی نہیں کی جا سکتی۔  اس کی پوری معنویت ذہن نشین کر نے کے لیے یوں سمجھیے کہ دنیوی زندگی کی وہ ظاہری سطح جس پر مومن، منافق، کافر ، صالح، فاجر ، غرض تمام انسان کام کرتے ہیں، مٹی کی اُس اوپر ی تہ کے مانند ہے جس پر دنیا میں ساری عمارتیں بنائی جاتی ہیں ۔ یہ نہ اپنے اندر خود کوئی پائیدار ی نہیں رکھتی، بلکہ اس کی پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے ٹھوس زمین موجود ہو۔ اگر کوئی نہ ایسی ہو جس کے نیچے کی زمین کسی چیز ، مثلاً دریا کے پانی سے کٹ چکی ہو تو جو ناواقف انسان اس کی ظاہری حالت سے دھوکا کھا کر اس پر اپنا مکان بنائے گا اسے وہ اس کے مکان سمیت لے بیٹھے گی اور وہ نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ اس ناپائیدار بنیاد پر اعتماد کر کے اپنا جو کچھ سرمایہ ٔ زندگی وہ اس عمار ت میں جمع کرے گا وہ بھی برباد ہو جائے گا۔ بالکل اسی مثال کے مطابق حیاتِ دنیا کی وہ ظاہری سطح بھی جس پر ہم سب اپنے کارنامۂ زندگی کی عمار  اٹھاتے ہیں، بجائے خود کوئی ثبات و قرار نہیں رکھتی بلکہ اس کی مضبوطی و  پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے خدا کے خوف، اُس کے حضور جوابدہی کے احساس اور اُس کی مرضی کے اتباع کی ٹھوس چٹان موجود ہو۔ جو نادان آدمی محض حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر لیتا ہے  اور دنیا میں خدا سے بے خوف اور اس کی رضا سے بے پروا ہو کر کام کرتا ہے وہ دراصل خود اپنی تعمیر زندگی کے نیچے سے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بے بنیاد سطح ، جس پر اس نے اپنی عمر بھر کا سرمایہ ٔ عمل جمع کیا ہے ایک دن یکایک گر جائے  اور اسے اس کے پورے سرمایے سمیت لے بیٹھے۔