اس رکوع کو چھاپیں

سورة التوبة حاشیہ نمبر١

جیسا کہ ہم سورہ کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں ، یہ خطبہ رکوع ۵ کے آخر تک سن ۹ ھجری میں اُس وقت نازل ہوا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکرؓ کو حج کے لیے روانہ کر چکے تھے ۔ ان کے پیچھے جب یہ نازل ہوا تو صحابۂ کرام نے حضور سے عرض کیا کہ اسے ابوبکر کو بھیج دیا جائے تو کہ وہ حج میں اس کو سنا دیں۔ لیکن آپؐ نے فرمایا  کہ اس اہم معاملہ  کا اعلان میری طرف سے میرے ہی گھر کے کسی آدمی کو کرنا چاہیے۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت علیؓ کو اس خدمت پر مامور کیا ، اور ساتھ ہی ہدایت فرمادی کہ حاجیوں کے مجمعِ عام میں اسے سنانے کے بعد حسبِ ذیل چار باتوں کا اعلان بھی کر دیں: (۱) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہوگا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ (۲) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ (۳) بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے۔(۴) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا معاہدہ باقی ہے ، یعنی جو نقضِ عہد کے مرتکب  نہیں ہوئےہیں ، ان کے ساتھ مدتِ  معاہدہ تک وفا کی جائے گی۔
اس مقام پر یہ جان لینا ضروری  بھی فائدے سے خالی نہ ہو گا کہ فتح مکہ کے بعد دَور اسلامی کا پہلا حج سن ۸ ھجری میں قدیم طریقے پر ہوا۔ پھر سن ۹ ھجری میں یہ دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر۔ اس کے بعد تیسرا حج سن ۱۰ ھجری میں خالص اسلامی طریقہ پر ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے  جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے دو سال حج کے لیے تشریف نہ لے گئے۔ تیسرے سال جب بالکل شرک کا استیصال ہو گیا تب آپؐ نے حج ادا فرمایا۔