اس آیت کی تفسیر میں اہل تاویل نے جو روایات بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ جنگ بدر میں لشکر قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے متعلق بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کےساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے رائے دی کہ فدیہ لےکر چھوڑ دیا جائے، اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ قتل کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر ؓ کی رائے قبول کی اور فدیہ کا معاملہ طے کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات بطور عتاب نازل فرمائیں۔ مگر مفسریں آیت کے اس فقرے کی کوئی معقول تاویل نہیں کر سکے ہیں کہ ”اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا۔“وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد تقدیر الہٰی ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ فرماچکا تھا کہ مسلمانوں کے لیے غنائم کو حلال کر دے گا۔ لیکن یہ ظاہر ہےکہ جب تک دھی تشریعی کے ذریعہ سےکسی چیز کی اجازت نہ دی گئی ہو، اس کا لینا جائز نہیں ہو سکتا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پوری اسلامی جماعت اس تاویل کی رو سے گناہ گار قرار پاتی ہے اور ایسی تاویل کو اخبار احاد کے اعتماد پر قبول کر لینا ایک بڑی ہی سخت بات ہے۔ |