اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانفال حاشیہ نمبر۴۹

اس آیت کی تفسیر میں اہل تاویل نے جو روایات بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ جنگ بدر میں لشکر قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے متعلق بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کےساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابو بکر ؓ  نے رائے دی کہ فدیہ لےکر چھوڑ دیا جائے، اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ قتل کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر ؓ  کی رائے قبول کی اور فدیہ کا معاملہ طے کر لیا۔ اس پر  اللہ تعالیٰ نے  یہ آیات  بطور عتاب نازل فرمائیں۔ مگر مفسریں آیت کے اس فقرے کی کوئی معقول تاویل نہیں کر سکے ہیں کہ ”اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا۔“وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد تقدیر الہٰی ہے، یا یہ کہ  اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ فرماچکا تھا کہ مسلمانوں کے لیے غنائم کو حلال کر دے گا۔ لیکن یہ ظاہر ہےکہ جب تک دھی تشریعی کے ذریعہ سےکسی چیز کی اجازت نہ دی گئی ہو، اس کا لینا جائز نہیں ہو سکتا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پوری اسلامی جماعت اس تاویل کی رو سے گناہ  گار قرار پاتی ہے اور ایسی تاویل کو اخبار احاد کے اعتماد پر قبول کر لینا ایک بڑی ہی سخت بات ہے۔
                میرے نزدیک اس مقام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورہ محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں، ان میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ حَتّٰۤی اِذَ   ۤااَثۡخَنۡتُمُوۡ ھُمۡ فَشُدُّوا الوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا بَعۡدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَھَا (آیت ۴) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچھ دیاجائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے۔ اس فرمان کی رو سے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے اور اس کے بعد ان سےجو فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق، مگر غلطی یہ ہوئی کہ ”دشمن کی طاقت کو کچھ دینے “کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتا ہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا یک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا کچھ دور تک تعاقب کیا۔ حالاں کہ اگر مسلمان پوری طاقت سے اُن کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہو گیاہوا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عاب فرمارہا ہے اور یہ عتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے۔ فرمان مبارک کا منشا یہ ہے کہ ”تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھرے، بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب ہو جاتا ہے۔ پہلے دشمن کی اصل طاقت کے بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا، پھر دشمن کا سر کچلنے کے بجائے غنیمت لوٹنے اور قیدی پکڑنے میں لگ گئے، پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے۔ اگر ہم پہلے فدیہ وصول کرنے کیا اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے ۔ خیر اب جو کچھ  تم نے لیا ہے وہ کھا لو، مگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ہے“۔ اس رائے پر پہنچ چکا تھا کہ امام حبصاص کی کتاب احکام القرآن میں یہ دیکھ کر مجھے مزید اطمینان حاصل ہوا کہ امام موصوف بھی اس تاویل کو کم از کم قابل لحاظ ضرور قرار دیتے ہیں۔ پھر سیرت ابن ہشام میں یہ روایت نظر سے گزری کہ جس وقت مجاہدینِ اسلام مال غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثات ہیں۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ ”اے سعد، معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے“۔ انہوں نےعرض کیا ”جی ہاں یا رسول اللہ، یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے، اس موقع پر انہیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچا لینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا“ ۔ ( سیرت ابن ہشام جلد ۲ ۔ صفحہ ۲۸۰ ، ۲۸۱)