اس آیت کے رو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرزِ عمل سے یہ شکایت لاحق ہو جائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کو تا ہی برت رہا ہے ، یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی مارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کر لیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کردیں جو معاہدہ نہ ہونے کہ صورت ہی میں کیا جاسکتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا، تا کہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہو جائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے۔ اسی فرمان الہٰی کے مطابق بنی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عقدہ حتی ینقضی امدھا او ینبذ الیھم عل سواء۔”جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے۔ یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے “۔ پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیزادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ لا تخن من خانک”جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سےخیانت نہ کر“۔ اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقہ پر حملہ کر دیا جائے تو ان کی اس کاروائی پر عمروبن عَنبَسَہ صحابی ؓ نے سخت احتجاج کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدہ کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا غداری ہے۔ آخر کار امیر معاویہ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا۔ |