اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانفال حاشیہ نمبر۲۸

یہ اشارہ اس غلط فہمی کو تردید میں ہے جو لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی اور جس سے عام طور پر اہلِ عرب دھوکا کھارہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش چونکہ بیت اللہ کے مجادرادمتوئی ہیں اور وہاں عبادت  بجا لاتے ہیں اس لیے ان پر اللہ کا فضل ہے ۔  اس کے رو میں فرمایا کہ محض میراث میں مجاورت اور تو لیت پالینے سے کوئی شخص یا گروہ کسی عبادتگاہ کا جائز مجادرومتولی نہیں ہو سکتا ۔ جائز مجادر و متولی تو صرف خدا ترس اور پر ہیز گار لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔اور ان لوگوں کا حال  یہ ہے کہ  ایک جماعت کو، جو خالص خدا کی عبادت کر نے والی ہے ،  اُس عبادت گاہ میں آنے سے روکتے ہیں جو خا لص خدا کی عبادت ہی کے لیے وقف کی گئی تھی۔ اس طرح یہ متولی اور خادم بن کر ہنے کے بجائے اس عبادت گاہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات کا مختار سمجھنے لگے ہیں کہ جس یہ ناراض ہوں اسے عبادت گاہ میں نہ آنے دیں۔ یہ حرکت ان کے ناخدا ترس اور نا پر ہیز گار ہونے کے صریح دلیل ہے۔ رہی ان کی عبادت جو وہ بیت اللہ میں  کرتے ہیں تو اس کے اندر نہ خضوع و خشوع ہے، نہ تو جہ الی اللہ ہے، نہ ذکر الہٰی ہے، بس ایک بے معنی شور و غل اور لہو و لعب ہے جس کا نام انہوں نے عبادت رکھ چھوڑا ہے۔ ایسی نام و نہاد خدمت بیت اللہ اور ایسی جھوٹی عبادت  پر آخر یہ فضلِ الہٰی کے مستحق کیسے ہوگئے اور یہ چیز انہیں عذاب الہٰی سے کیونکی محفوظ رکھ سکتی ہے؟