اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانفال حاشیہ نمبر۲۵

یہ اس موقع کا ذکر ہے  جبکہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ ولسم بھی مدینہ چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے اکہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے معاملہ میں ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے دار النَّددَہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس امر پر  باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدّباب کس طرح کیا جا ئے۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے۔ لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا  کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے جو ساتھی قید خانے سے باہر ہونگے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہ کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو ۔ پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے  اوعر کیا کرتا ہے ، بہر حال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا  تو بند ہو جائے گا۔  لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ شخص جادو بیان آدمی ہے ، دلوں کو موہنے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے، اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نہ معلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنالے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کرکے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لیے تم پر حملہ آور ہو گا ۔ آخر کار ابو جہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک  ایک عالی نسبت تیزدست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یک بارگی محمد ؐ پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر ڈالیں۔ اس طرح محمد ؐ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے ناممکن ہو جائے گا کہ سب سے لڑ سکیں اس لیے مجبوراً خوں بہا  پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہوجائیں گے۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا، قتل کے لیے آدمی بھی  نامزد ہوگئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا،حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا، لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر  نکل گئے اور ان  کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہو کر رہ گئی۔