اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانفال حاشیہ نمبر ۲۱

یہاں شکر گزاری کا لفظ غور کے قابل ہے ۔ اوپر کے سلسلہ تقریر کو نظر میں رکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس موقع پر شکر گزاری کا مفہوم صرف اتنا ہی  نہیں ہے کہ لوگ اللہ کے اس احسان کو مانیں کہ اس نے ا س کمزوری کی حالت سے انہیں نکا لا اور مکہ کی پر خطر زندگی سے بچا کر امن کی جگہ لے آیا جہاں طیبات رزق میسر ہو رہے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی اسی شکر گزاری کےمفہوم میں داخل ہے کہ مسلمان اُس خدا کی اور اُس کے رسول کی اطاعت کریں جس نے یہ احسانات ان پر کیے ہیں، اور رسول کے مشن میں اخلاص و جاں نثاری کے ساتھ کام کریں، اور اس کام میں جو خطرات و مہالک اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ اُسی خدا کے بھروسے پر کرتے چلے جائیں جس نے اس سے پہلے ان کو خطرات  سے بعافیت نکالا ہے، اور یقین رکھیں کہ جب وہ خدا کا کام اخلاص کے ساتھ کریں گے تو خدا ضرور ان کا وکیل و کفیل ہوگا۔ پس شکر گزاری محض اعترافی نوعیت ہی کی مطلوب نہیں ہے بلکہ عملی نوعیت کی بھی مطلوب ہے۔ احسان کا اعتراف کرنے کے باوجود محسن کی رضا جوئی کے لیے سعی نہ کرنا اور اس کی خدمت میں مخلص نہ ہونا اور اس کے بارے میں یہ شک رکھنا  کہ نہ معلوم آئندہ بھی وہ احسان کریگا یا نہیں، ہر گز شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اُلٹی نا شکری ہے۔