اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانفال حاشیہ نمبر۲

یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الہٰی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیمق کر کے سر اطاعت جھکا دے، آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی  مرضی کے خلاف ، اس کی محبتوں اور دوستیوں کے  خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا و ررسول کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر ے تو اس سے آدمی کے ایمن کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر ایسا  کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے  ایمان کی جان نکلنی شروع ہوجاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے، اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی ایک مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا، اور اگر اس نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشونما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے۔ اور اس طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقاء بھی ہو سکتا ہے ار تنزل بھی۔ البتہ فقی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و داجبات یکساں ہوں گے خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو۔ اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں دی یا حربی یا معاہدومسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو۔