اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۸۷

  یہ دو نشانیاں حضرت موسیٰ ؑ  کو اس امر کے ثبوت میں دی گئی تھیں کہ وہ اُس خدا کے نمائندے ہیں جو کائنات کاخالق اور فرماں روا ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم اشارہ کر چکے ہیں، پیغمبروں نے جب کبھی اپنے آپ کو فرستادہ رب العالمٰین  کی حیثیت سے  پیش  کیا تو لوگوں نے ان سے یہی مطالبہ کیا کہ اگر تم واقعی  رب العالمٰین  کے نمائندے ہو تو تمہارے ہاتھوں سے  کوئی ایسا واقعہ ظہور میں آنا چاہیے جو قوانین فطرت  کی عام روش سے ہٹا ہوا ہو اور جس سےصاف ظاہر ہو رہا ہو کہ رب العالمٰین نے تمہاری صداقت ثابت کرنے کے لیے اپنی براہ راست مداخلت سے یہ واقعہ نشانی کے طور پر صادر کیاہے۔  اسی  مطالبہ کے جواب میں انبیاء نے وہ نشانیاں دکھائی ہیں جس کو قرآن کی اصطلاح میں ”آیات “اور متکلمین کی اصطلاح میں”معجزات“کہا جاتا ہے۔ ایسے نشانات یا معجزات کو جو لوگ قوانین فطرت کے تحت صادر ہونے والے عام واققعات قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ درحقیقت کتاب اللہ کو ماننے اور نہ ماننے کے درمیان ایک ایسا موقف اختیار کرتے ہیں جو کسی طرح معقول نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اس لیے کہ قرآن جس جگہ صریح طور پر خارق ِ عادت و اقعہ کا ذکر کر رہا ہو وہاں سیاق و سباق کے بالکل خلاف ایک عادی واقع بنانے کی جدو جہد محض ایک بھونڈی سخن سازی ہے جس کی ضرورت صرف اُن لوگوں کو پیش آتی ہے جو ایک طرف تو کسی ایسی کتاب پر ایمان نہیں لانا چاہتے  جو خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہو اور دوسری طرف آبائی مذہب کے پیدائشی معتقد ہونے کی وجہ سے اُس کتاب کا انکار بھی نہیں کرنا چاہتے  جو فی الواقع خارقِ عادت واقعات کا ذکر کرتی ہے۔
معجزات کے باب میں اصل فیصلہ کن سوال صرف یہ ہے کہ آیا  اللہ تعالیٰ نظام ِ کائنات کو ایک قانون پر چلا دینے کے عد معطل ہو چکا ہے اور اب اس چلتے ہوئے نظام میں کبھی کسی موقع پر مداخلت نہیں کر سکتا ؟ یا وہ بالفعل اپنی سلطنت کو زمام تدبیر و انتظام  اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اور ہر آن اس کے احکام اس سلطنت میں نافذ ہوتے ہیں اور اُس کو ہر وقت اختیار حاصل ہے کہ اشیا کی شکلوں اور واقعات کی عادی رفتار میں جزئی طور پر یا کلّی طور پر جیسا چاہے اور جب چاہے تغیر کر دے؟ جو لوگ اس سوال کے جواب میں پہلی بات کے قائل ہیں ان کے لیےمعجزات کو تسلیم کرنا غیر ممکن ہے، کیونکہ معجزہ نہ ان کے تصّور خدا سے میل کھاتا ہے اور نہ تصورِ کائنات سے۔ لیکن ایسے لوگوں کے لیے  مناسب یہی ہے کہ وہ قرآن کی تفسیر و تشریح کرنے کے بجائے اس کا صاف صاف انکار کر دیں کیونکہ قرآن نے تو اپنا زورِ بیان ہی خدا کے مقدم الذکر تصور کا ابطال اور موخر الذکر تصور کا اثبات کرنے پر صرف کیا ہے ۔ بخلاف اس کے جو شخص قرآن کے دلائل سے مطمئن ہو کر دوسرے تصور  کو قبول کر لے اُس کے لیے معجزے کو سمجھناا ور تسلیم کرنا  کچھ مشکل نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کا عقیدہ ہی یہ ہو گا کہ اژدہے جس طرح پیدا  ہوا کرتے ہیں اسی طرح وہ پیدا ہو سکتے ہیں، اُس کے سوا کسی دوسرے ڈھنگ پر کوئی اژدہا پیدا کر دینا خدا کی قدرت سے باہر ہےتو آپ مجبور  ہیں ایسے بیان کو قطعی طور پر جھٹلا دیں جو آپ کو خبر دے رہا ہو کہ ایک لاٹھی اژدے میں تبدیل ہوئی اور پھر اژدہے سے لاٹھی بن گئی۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کا عقیدہ یہ ہو کہ بے جان مادے میں خدا کے حکم سے زندگی پیدا ہو تی ہے اور خدا جس مادے کو جیسی چاہے زندگی  عطا کر سکتا ہے، اس کے لیے خدا کے حکم سے لاٹھی کا اژدہا بننا اتنا ہی غیر عجیب واقعہ ہے جتنا اسی خدا کے حکم سے انڈے کے اندر بھرے ہوئے چند بے جان مادوں کا اژدہا بن جانا غیر عجیب ہے۔ مجر د یہ فرق کہ ایک واقعہ ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور دوسرا واقعہ صرف تین مرتبہ پیش آیا ، ایک کو غیر عجیب اور  دوسرے کو عجیب بنا دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔