اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۸۵

 لفظ فرعون کے معنی ہیں”سورج دیوتا کی اولاد۔“ قدیم اہلِ مصر سورج کو، جو اُن کا مہا دیو یا ربِّ  اعلیٰ تھا، رَغ کہتے تھے اور فرعون اسی کی طرف منسوب تھا۔ اہل مصر کے اعتقاد کی رو سے کسی فرماں روا کی حاکمیت کے لیے اس کے سوا کوئی بنیاد نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ رَغ کا جسمانی مظہر اور اُس کا  ارضی نمائندہ  ہو، اسی لیے ہر شاہی خاندان جو مصر میں بر سرِ اقتدار آتا تھا، اپنے آپ کو سورج بنسی بنا کر پیش کرتا ، اورہر فرماں روا  جو تخت نشین ہوتا، ”فرعون“ کا لقب اختیار کر کے باشندگانِ ملک کو یقین دلاتا کہ تمہارا ربِّ اعلیٰ یا مہادیو میں ہوں۔
یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ  قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے ۔ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ نے پرورش پائی۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور بالآخر غرق ہوا۔  موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون  رعمسیس دوم تھا جس کا زمانہ حکومت سن١۲۹۲ ءسے سن١۲۲۵ ءقبل مسیح تک رہا۔ اور دوسرا فرعون جس کا یہاں اِن آیات میں ذکر ہو رہا ہے، منفتہ یا منفتاح تھا جو اپنے  باپ رعمسیس دوم کی زندگی ہی میں شریک حکومت ہو چکا تھا  اور اس کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا۔ یہ قیاس بظاہر اس لحاظ سے مشتبہ  معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے حساب سے حضرت موسیٰؑ  کی تاریخ وفات ١۲۷۲ قبل مسیح ہے۔ لیکن بہر حال یہ تاریخی قیاسات ہی ہیں اور مصری، اسرائیلی  اور عیسوی جنتریوں کے تطابق سے بالکل صحیح تاریخوں کا حساب لگانا مشکل ہے۔