اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۸۳

اوپرجو قصے بیان ہوئے ان سے مقصود یہ ذہن نشین کرانا تھا کہ جو قوم خدا کا پیغام پانے کے بعد اسے رد کر دیتی ہے اسے پھر ہلاک کیے بغیر نہیں چھوڑا جاتا ۔ اس کے بعد اب موسیٰ و فرعون اوربنی اسرائیل کا قصہ کئی رکوعوں تک مسلسل چلتا ہے جس میں اس مضمون کے علاوہ چند اور اہم سبق بھی کفار قریش، یہود اور ایمان لانے والے گروہ کر دیے گئے ہیں۔
کفار قریش کو اس قصے کے پیرائے میں یہ سمجھا نے کی کو شش کی گئی ہے کہ دعوتِ حق کے ابتدائی مر حلوں میں حق اور باطل کی قوتوں کا جو تنا سب بظاہر نظر آتا ہے، اُس سے دھوکا نہ کھاناچاہیے۔ حق کی تو پوری تاریخ ہی اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ایک فی قوم بلکہ ایک فی دنیا کی اقلیت سے شروع ہوتا ہے اور بغیر کسی سرو سامان کے اُس باطل کےخلاف لڑائی چھیڑ دیتا ہے جس کی پشت پر بڑی بڑی قوموں اور سلطنتوں کی طاقت ہوتی ہے، پھر بھی آخر کار وہی غالب آکر رہتا ہے۔ نیز اس قصے میں ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ داعی حق کے مقابلہ میں جو چالیں چلی جاتی ہیں اور جن تدبیروں سےا س کی دعوت کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ کس طرح اُلٹی پڑتی ہیں۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ منکریں حق کی ہلاکت کا آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اُن کو کتنی کتنی طویل مدّت تک سنبھلنے اور درست ہونے کے مواقع دیتا چلا جاتا ہے اور جب کسی تنبیہ، کسی سبق آموز واقعے اور کسی روشن نشانی سے بھی وہ اثر نہیں لیتے تو پھر وہ انہیں کیسی عبرتناک سزا دیتا ہے۔
 جو لوگ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے ان کو اس قصے میں دوہرا سبق دیا گیا ہے۔ پہلا سبق اس بات کا کہ اپنی قلت و کمزوری کو اور مخالفین حق کی کثرت و شوکت کو دیکھ کر اُن کی ہمت نہ ٹوٹے اور اللہ کی مدد آنے میں دیر ہوتے دیکھ کر وہ دل شکستہ  نہ ہوں۔ دوسرا سبق اس بات کا کہ ایمان لانے کے بعد جو گروہ یہودیوں کی سی روش اختیار کرتا ہے وہ پھر یہودیوں ہی کی طرح خدا کی لعنت  میں گرفتا ربھی ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل کے سامنے ان کی عبرتناک تاریخ پیش کرکے انہیں باطل پرستی کے بُرے نتائج پر متنبہ کیا گیا ہے اور اُس پیغمبر پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو پچھلے پیغمبروں کے لائے ہوئے دین کو تمام آمیزشوں سے پاک کر کے پھر اس کی اصلی صورت میں پیش کر رہا ہے۔