اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر٦۴

 دوسرے مقامات پر اس قوم کے بعض اور اخلاقی جرائم کا بھی ذکر آیا ہے، مگر یہاں اس کے سب سے بڑے جرم کے بیان پر اکتفا  کیا گیا ہے جس کی وجہ سے  خدا کا عذاب اس پر نازل ہوا۔
یہ قابل نفرت فعل  جس کی بدولت اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی ہے، اس کے ارتکاب سے تو بد کردار انسان کبھی باز نہیں آئے، لیکن یہ فخر صرف یونان کو حاصل ہے کہ اس  کے فلاسفہ نے اس گھناؤنے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبے تک اٹھا نے کی کوشش کی اور اس کے بعد جو کسر باقی رہ گئی تھی اسے جدید مغربی تہذیب نے پورا کیا کہ علانیہ اس کے حق میں زبر دست پروپیگنڈا کیا گیا، یہاں تک کہ بعض ملکوں کی مجالسِ قانون سازنے اسے باقاعدہ جائزٹھیرا دیا۔ حالانکہ یہ بالکل ایک صریح حقیقت ہے کہ مبا شرتِ ہم جنس قطعی طور پر وضِع  فطرت کےخلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات انواع میں نرومادہ کا فرق محض تناسُل اور بقائے نوع کے لیے رکھا ہے اور نوع انسانی کے اندر اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اُس سے تمدن کی بنیاد پڑے۔ اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ صنفیں بنا ئی گئی ہیں، ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی  کشش پیدا کی  گئی ہے، ان کی جسمانی سباخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصد زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے اور  ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے بیک وقت داعی ومحرک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی ۔ مگر جو شخص فطرت کی اس اسکیم کے خلاف عمل کر کے اپنے ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرتا ہے وہ ایک ہی وقت میں متعدد جرائم کا  مرتکب ہوتا ہے۔ اوّلاً وہ اپنی اور  اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی  ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خللِ عظیم بر پا کردیتا ہے جس سے دونوں کے جسم ،نفس اور اخلاق پر نہایت بُرے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ ۲؀  ثانیاً وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت  کا ارتکا ب کرتا ہے، کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول  کو فرائض اور زمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اسے کسی خدمت  کی بجاآوری اور کسی فرض  اور حق کی ادائیگی اور کسی ذمہ داری کے التزام کے بغیر چُرا لیتا ہے۔ ۳؀   ثالثاً  وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بد دیا نتی کرتا ہے کہ جماعت کے قائم  کیے ہوئے تمدنی اداروں سے فائدہ تو اُٹھا لیتا ہے مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں  کا بوجھ اٹھانے کے بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقہ پر استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں بلکہ  ایجاباً مضرت رساں ہے ۔ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نا اہل بنا تا ہے، اپنے ساتھ کم از کم ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کرتا ہے، اور کم از کم  دو عورتوں کے لیے  بھی صنفی بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔