اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر٦۳

  یہ قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جسے آج کل شرق اردن(Trans Jordan ) کہا جاتا ہے اور عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے۔ بائیبل میں اس قوم کے صدر مقام کا نام”سدوم“ بتا یا گیا ہے جو یا  تو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھا یا اب بحیرہ مردار میں غرق ہو چکاہے۔تَلمود میں لکھا ہے کہ سدوم کے علاوہ  ان کے چار بڑے بڑے شہر اور بھی تھے اور ان شہروں کے درمیان کا علاقہ ایسا گلزار بنا  ہوا تھا کہ میلوں تک بس ایک باغ ہی باغ تھا جس کے جمان کو دیکھ کر انسان پر مستی طاری ہو نے لگتی تھی۔ مگر آج اس قوم کا نام و نشان دنیا سے بالکل نا پید ہو چکا ہے اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ اس کی بستیاں ٹھیک کس مقام پر واقع تھیں ۔ اب صرف بحیرہ مردار ہی اس کی ایک یادگا باقی رہ گیا ہے جسے آج تک بحِر لوط کہا جاتا ہے۔
حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابرہیم  علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ اپنے چچا کے ساتھ عراق سے نکلے اور کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت  لگا کر دعوت تبلیغ کا تجربہ حاصل کرتے رہے۔ پھر مستقل پیغمبری کے منصب پر سرفراز ہو کر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ اہل سدوم کو ان کی قوم اس لحاظ سے کہا گیا ہے کہ شاید ان کیا رشتہ داری کا تعلق اس قوم سے ہوگا۔
یہودیوں کی تحریف کردہ بائیبل میں حضرت لوط کی سیرت پر جہاں اور بہت سے سیاہ دھبے لگائے گئے ہیں وہاں ایک دھبہ یہ بھی ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لڑ کر سدوم کے علاقے میں چلے گئے  تھے(پیدائش، باب ١۳۔آیت١۔١۲)۔ مگر قرآن اس غلط بیانی کی تردید کر تا ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ نے انہیں رسول بنا کر اس قوم کی طرف بھیجا تھا۔